ڈاکٹر نذیر بندیجہ
25 جولائی 2022 کی صبح آنکھ کھلی تو یوں لگا پورا اوتھل آج پریشان لگ رہا ہے ،ہر طرف یہی شور تھا کہ اوتھل کی لنڈا اور کھانٹا ندی میں حد سے زیادہ پانی آیا ہے اور اب پانی نے شہر کی طرف رخ کرلیا ہے۔ خیر میں بھی جلدی جلدی سے لنڈا پل کی طرف گیا تو دیکھا بلوچستان کی خونی شاہراہ جو کراچی اور کوئٹہ کو آپس میں ملاتی ہے ٹوٹ گئ ہے اور لوگوں کے ہجوم کو پولیس ٹوٹی پل سے دور ہٹانے میں مصروف ہے ۔
روڈ کے دونوں اطراف گاڑیوں کی لمبی قطاریں کھڑیں تھیں۔ مسافر پریشان حال کھڑے تھے دوسری طرف پانی کا سارا رخ اوتھل بازار کی طرف تھا۔ لوگ اپنے گھروں سے قیمتی سامان اور بال بچوں کو نکالنے میں مصروف تھے۔ غرض ہر ایک کو اپنی لگی تھی ہر کوئی پریشانی کے حال میں مبتلا تھا اوتھل شہر کا رابطہ نا صرف بیلہ بلکہ کراچی سے بھی ٹوٹ چکا تھا کیونکہ کھانٹا پل بھی ٹوٹ گئی تھی۔
مختلف علاقوں سے خبریں آرہی تھیں کہ اتنے لوگوں کو سیلابی پانی بہا لے گیا ہے اس دوران موبائل فون کے نیٹورک منقطع ہونے کی وجہ سے لوگوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا تھا کیونکہ اپنوں سے رابطہ بھی نہیں ہو پارہا تھا۔ بجلی کے کھمبے بھی پانی بہاکر لے گیا تھا۔ اسی رات لسبیلہ میں یہ واحد شاہراہ اوتھل بیلہ کے درمیان 5 مختلف مقامات سے ٹوٹ چکی تھی۔ اور اوتھل کے ساتھ ساتھ بیلہ بھی بری طرح سیلاب کی وجہ سے متاثر ہوچکا تھا کیونکہ سیلاب نے وہاں بھی بڑے پیمانے پر تباہی مچا کر رکھی تھی۔
بیلہ کا سیلابی پانی لاکھڑا میں داخل ہوگیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کے گھر مال و املاک زمینیں وغیرہ سب پانی کی نذر ہوچکے تھے سیلاب نے لاکھڑا اور اس کے ارد گرد کے تمام علاقوں کے زمینی راستے منقطع کر دئیے تھے۔ ہر طرف خوف کا سماں تھا۔ اس دوران لگاتار بارشوں کا سلسلہ بھی جاری تھا اور حب ڈیم میں لگاتار پانی کے لیول میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا حب ڈیم کے ٹوٹنے کا بھی بہت زیادہ خطرہ تھا۔ ہنگامی راستوں سے پانی کا اخراج کیا گیا جس سے حب ندی میں بھی سیلابی صورتحال پیداہوگئی اور حب کو کراچی سے ملانے والی پل جو پہلے سے مخدوش صورتحال سے دوچار تھی اس سیلابی ریلے کا دباؤ برداشت نہ کرسکی اور ٹوٹ گئی جس سے مزید مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ لوگوں کو کراچی جانے کے لئے مغربی بائی پاس والے راستے کو اختیار کرنا پڑا۔ اس وقت لسبیلہ میں ڈپٹی کمشنر کے فرائض افتخار احمد بگٹی صاحب سر انجام دے رہے تھے جو خود سیلابی پانی کے راستہ منقطع ہونے کی وجہ سے سے ضلعی ہیڈ کوارٹر اوتھل شہر پہنچنے سے قاصر تھے۔ خیر انہوں نے اپنے محدود وسائل میں ایمرجنسی نافظ کردی لیکن اس قدرتی آفت کے سامنے ان کی ایک نہیں چل رہی تھی انہیں سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیسے لوگوں کو اس مشکل حالات سے نکالنا ہے کیونکہ موبائل فون کے نیٹورک نہ ہونے کی وجہ سے نقصانات کا اور زیادہ متاثرہ علاقوں کا صحیح پتہ ہی نہیں چل پارہا تھا اور تمام راستے بھی منقطع ہوگئے تھے ۔
دوسری طرف ہمارے ملک کی میڈیا کو ہمارے ان مشکل حالات کا جیسے کچھ علم ہی نہیں تھا اور وہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ وزیر اعلیٰ کا کھیل کھیل رہے تھے حالانکہ اوتھل کراچی سے بمشکل 100 کلومیٹر دور ہے۔غرض دو دن لسبیلہ بھر میں شدید ہنگامی صورتحال تھی لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا لوگ اپنی مدد آپ خود کو ریسکیو کر رہے تھے اور ایک دوسرے کا سہارا بن رہے تھے۔
سیلاب متاثرین کو نکالنے کے لیے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ بہت کوشش کی ان کو رہنے کے لئے جگہ دی کھانا فراہم کیا علاج معالجے کے لئےہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ جب موبائل فون کے نیٹورک بحال ہوئے تو رضاکار بھی پہنچ گئے اور ہیلی کاپٹر سے پھنسے لوگوں کو نکالنے کا عمل بھی شروع کیا اور کھانا بھی فراہم کیا۔ اس تمام دورانیے میں ضلعی انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کو لوگ کوستے رہے اور ڈپٹی کمشنر افتخار احمد بگٹی کا تبادلہ ہو گیا۔ انکی جگہ ایک اور مرد مجاہد ڈی سی مراد کاسی تعینات ہوۓ جنہوں نے دن رات ایک کر کے لوگوں کی خدمت میں کمی رہنے نہیں دی ۔ پھر کراچی کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ایک یہ فائدہ ضرور ہوا کہ تمام فلاحی تنظیموں نے سیلاب متاثرہ علاقوں کا رخ کیا اور انہوں نے حقیقی طور پر مشکل میں پھنسے سیلاب متاثرین کی مدد کی جسکا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ سیلاب کی وجہ سے مختلف وباہی امراض بھی پھیلے جیسے ہیضہ قے ملیریا اسکن کی بیماریاں وغیرہ جس کے لیے مختلف فلاحی تنظیموں نے طبی کیمپس بھی لگائے۔ ان تمام امدادی کاموں میں لسبیلہ ویلفیئر ٹرسٹ کا اگر ذکر نہ کیا جاۓ تو انکے ساتھ نا انصافی ہوگی کیوںکہ اس تمام تر مشکل حالات میں یہ واحد فلاحی تنظیم تھی جو سب سے پہلے لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے پہنچ رہی تھی کیونکہ سیلاب کا یہ سلسلہ جولائی سے پھر اگست تک جاری رہا خاص طور پر 19 اور 20 اگست کو بھی اوتھل اور بیلہ میں بہت بڑے سیلابی ریلے آۓ تھے۔
بیلہ کی مشہور بندرگاہ گو اس کے ٹوٹنے کا خطرہ بھی تھا اگر مزید سیلابی ریلے آتےتو بہت سارے گاؤں بیلہ کے صفحہ ہستی سے مٹ جاتے، وہاں کے لوگ نکل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ سیلابی پانی نے بیلہ بازار کا بھی رخ کیا اور سنڈیمن کا پورا علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا تو تھا دوسری طرف نرگ ہنجری نے بھی بڑے پیمانے پر تباہی مچا رکھی تھی بیلہ کے بہت سارے گاؤں پانی میں ڈوب گئے تھے۔
خیر سیلاب متاثرین کو ابتدائی ہنگامی صورتحال سے نکالنے کے لیے فلاحی تنظیموں نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا لیکن سرکاری سطح پر آج بھی لوگ منتظر ہیں کہ انکی کب داد رسی کی جاۓ گی اس تمام تر دورانیے میں دو سے تین سروے کئیے گئے لوگوں کے نقصانات کا اندازاہ لگانے کے لیے۔ اس میں ملکی دفاعی رضاکار بھی شامل تھے لیکن بے گھر افراد آج بھی حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب ان کو نئے گھر بنا کر دئیے جائیں گے ۔ کب ان کے کھیت جو انکے ذریعہ معاش کا اہم ترین ذریعہ ہے پانی کے نذرہوگئے انکو بنا کے دیں گے، انکے سولر بور پانی کی نذرہوگئے ان کے مال مویشی پانی بہا کر لے گیا لیکن مجال ہے حکومت بلوچستان کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔
آج ایک سال گزر گیا ہے لوگ اب تک اپنی پہلی والی صورتحال میں نہیں کئے جاسکے ہیں۔ سیلاب نے ان کو جو دھچکا پہنچایا ہے اس سے سنبھل نہیں سکے ہیں۔ اگر بات کی جاۓ کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی اہم شاہراہ نیشنل ‘‘آر سی ڈی‘‘ کی وہ چھ سے سات مختلف مقامات پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی وہ آج بھی جوں کی توں ہے آج بھی اگر تھوڑا سا بھی سیلابی پانی آتا ہے تو ٹریفک کی روانگی معطل ہوجاتی ہے حتیٰ کہ حب اور کراچی کو ملانے والی اہم پل کو بھی اب تک تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔ پھر آخر ہم کیوں ٹیکس دے رہے ہیں ۔
جن اہم بندات کو نقصان پہنچا تھا وہ بھی اب تک مخدوش حالت میں ہیں۔ جب بھی سیلابی پانی آیا ان کو ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ موجود ہے۔ مجھے حیرانگی ہے حکومت بلوچستان آخر کیوں ایک سال گزر جانے کے باوجود اتنے اہم مسائل پر توجہ نہیں دے رہی۔ کیا وہ واپس ایک اور بڑے نقصان کے انتظار میں ہیں؟کیا وہ واپس ہمارے اپنوں کی لاشوں پر سیاست کرنے کے منتظر ہیں؟ خدارا اب بھی وقت ہے ان تمام مسائل کی طرف توجہ دیں ان تمام بندات کو ٹھیک کریں لوگوں کو گھر بنا کر دیں ٹوٹ پھوٹ کے شکار سڑک کو دوبارہ تعمیر کرائیں۔
ڈاکٹر نذیر بندیجہ کا تعلق لسبیلہ کی تحصیل بیلہ سے ہے اور وہ لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنس میں ویٹرنری سائنسز کی فیلڈ کے لیکچرر ہیں ۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.