تمہاری سوچ میں موت کا اک دن مقرر ہے
جو پل ٹوٹے سبھی ڈوبے،تو یہ روز مقرر ہے
ہمارے شہر میں تو موت کا ماحول برپا ہے
کوہی نشے سے مر جائے تو یہ روز مقرر ہے
غریبوں کے گھروں میں چھت برائے نام ہوتا ہے
جو بارش میں یہ گر جائے تو یہ روز مقرر ہے
سنا ہے قید خانوں میں بہت ہی ظلم ہوتا ہیں
عدالت تک جو نہ پہنچے تو یہ روز مقرر ہے
یہ جو معلوم ‘نامعلوم کی نکلی ہوئی گولی
کسی سینے میں لگ جائے تو یہ روز مقرر ہے
اذیت کی حدیں جب حدوں سے پار ہوجائے
کریں خود خودکشی کوئی تو یہ روز مقرر ہے
کیا ہے عام جو تم نے بغاوت کی روایت کو
اور زد میں تم بھی آجاؤ تو یہ روز مقرر ہے
جولائی /2023/14