مستونگ دھماکہ: شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے جس میں وہ ناکام ہوچکا ہے، ڈاکٹر مالک بلوچ
نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مستونگ دھماکے میں بڑے پیمانہ پر انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کرتے ہوئے واقعہ کو افسوس ناک سانحہ قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا ہے کہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، جسے احسن طریقہ سے انجام نہ دینے کے باعث ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ متاثرین کے خاندانوں کی مالی معاونت کرے اور زخمیوں کو علاج کی بہتر سہولیات فراہم کرے ۔
مستونگ بم دھماکہ: حکومت عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہے، اسرار زہری
بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مرکزی صدر سابق وفاقی وزیر میر اسراراللہ خان زہری نے اپنے جاری کردہ مذمتی بیان میں کہا ہے کہ مستونگ میں میلادالنبی کے جلوس پر دھماکہ، 50 سے زائد نہتے شہریوں کی ہلاکت اور درجنوں افراد کے زخمی ہونے کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے جس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
میر اسراراللہ خان زہری نے کہا ہے کہ بلوچستان کے حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہے لوگوں کے جان ومال محفوظ نہیں، مستونگ انتظامیہ کی جانب سے سیکورٹی معاملات میں غفلت اور ناکامی سے علاقے میں خطرناک واقعہ رونما ہوا، اس سے قبل بھی مستونگ میں سیاسی قائدین اور پارٹیوں کے جلسے وجلوسوں پر بم حملے کیے گئے ہیں، جس کا مستونگ میں تسلسل تاحال جاری ہے۔
انہوں نے کہا سیکیورٹی کے نام پر بلوچستان میں اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود حملوں کے باعث عوام عدم تحفظ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
میر اسرار اللہ خان زہری نے کہا کہ نگراں حکومت صوبے میں پارٹیوں کے جلسے وجلوس اور سیاسی قائدین کی سیکورٹی کو سخت کرکے ان کو تحفظ دینے کیلئے اقدامات کرے۔
دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں، مقامی انتظامیہ مستونگ میں امن وامان قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہے، علاقے میں پے درپے دھماکوں سے مستونگ کے عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں، مقامی انتظامیہ دھماکے کی تحقیقات کرکے اس میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے۔
مستونگ خودکش دھماکہ افسوس ناک، ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے، سردار اختر مینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی اعلامیہ کے مطابق پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل نے اپنے بیان میں مستونگ خود کش حملے میں درجنوں قیمتی جانوں کے ضیاع کو دردناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت زخمیوں کے علاج و معالجے کے لئے فی الفور اقدامات کرتے ہوئے واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنایا جائے۔
پارٹی بیان میں رہنماؤں و کارکنوں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ مستونگ اور کوئٹہ کے ہسپتالوں میں جا کر زخمیوں کیلئے خون کے عطیات اور ہر ممکن تعاون کو یقینی بنائیں–
مستونگ خودکش دھماکے میں ہلاک ڈی ایس پی محمد نواز گشکوری کون تھے؟
بلوچستان کے اہم ضلعے مستونگ میں جمعہ کی صبح 12 ربیع الاول کے جلوس کے قریب زور دار خودکش دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے۔ آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کے مطابق دھماکے میں ڈی ایس پی محمد نواز گشکوری سمیت 3 پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
محمد نواز گشکوری نے یکم جنوری 1966 میں بلوچستان کے علاقے سبی میں آنکھ کھولی۔ اپنی گریجوایشن مکمل کرنے کے بعد محمد نواز گشکوری نے 2 اپریل 1988 میں محکمہ پولیس میں بطور اے ایس آئی شمولیت اخیتار کی۔
پانچ سال بطور اے ایس آئی اپنی ذمہ داریاں سر انجام دینے کے بعد انہیں 27 نومبر 1993 کو سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ محمد نواز گشکوری 5 اگست 2006 میں انسپیکٹر جبکہ 9 جون 2015 کو ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز ہوئے۔
اپنی سروس کے دوران انہوں نے جھل مگسی، ڈھاڈر، باگ، کوئٹہ، زیارت، نصیر آباد، ہرنائی اور کوہلو میں اپنے فرائض سر انجام دیے۔ جبکہ 26 مئی 2023 کو بطور ڈی ایس پی مستونگ تعیناتی حاصل کی۔
آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کے مطابق، ڈی ایس پی نے خود کش بمبار کو جلوس میں جانے سے روکتے ہوئے اپنی جان دیدی کیا۔
مستونگ میں خودکش دھماکہ،52افراد ہلاک60 سے زائد افراد زخمی
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں عید میلاد النبی کے جلوس میں ہونے والے خود کش دھماکے میں اب تک کے اطلاعات کے مطابق، ڈی ایس پی مستونگ سمیت 52 افرادہلاک جبکہ 60 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔
انتظامیہ کے مطابق خود کش دھماکہ مستونگ کی مدینہ مسجد کے باہر عید میلاد النبی کے جلوس کیلئے جمع افراد کے درمیان کیا گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق جلوس کے شرکا نعت خوانی میں مصروف تھے کہ جلوس میں شامل گاڑی کے قریب دھماکا ہوا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے کی شدت کی وجہ سے ان کے کان بند ہوگئے تھے اور کچھ لوگ لاشوں اور زخمیوں کی حالت دیکھ کر بے ہوش ہوگئے تھے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق دھماکے میں ڈی ایس پی نواز گشگوری سمیت 52 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ دھماکے کے زخمیوں میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے۔
ایک طرف حکومت دعوی کررہا ہے کہ تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردیا گیا اور لوگوں کا علاج ہورہا ہے مگر دوسری جانب عینی شاہدین نے بتایا کہ ایمبولینسیں کم تھیں، زخمیوں اور ہلاک افراد کو رکشوں، ڈاٹسن اور دوسری گاڑیوں میں اسپتال منتقل کیا گيا۔