وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا کہ اب تک ریاستی فورسز اور خفیہ اداروں نے بلوچ سیاسی کارکنوں سے لے کر قیادت تک بلا تفریق اس پر امن بلوچ طلباء تنظیم کے وجود کے ہر حصے کو چیر پھاڑ کر کچلنے کی کوشش کی ہے اس درندگی کا نشانہ بننے اور اپنے تنظیم کا قرض اتارنے کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں نے قابض قوتوں کی ان کوششوں کو ناکام بنا دیا اس درندگی کا نشانہ بننے والے ایسے ہی نڈر بےباک رہنما بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ بھی ہیں جو بلوچ قوم کی محکومی غلامی کے خاتمے کی خاطر پر امن جد وجہد میں اپنا تاریخی فریضہ جمہوری انداز میں بڑے احسن طریقے اور خلوص سے ادا کررہے تھے، زاہد بلوچ اپنی سیاسی پختگی کی بدولت بلوچ طلباء اور نوجوانوں کی پر امن تحریک سے گہری وابستگی کے لیے انتہائی موثر کردار ادا کررہے تھے ان کے ہاتھوں میں بندوق نہیں بلکہ حق گوئی کا قلم کتاب تھے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ زاہد بلوچ کو 18مارچ 2014 کو ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری اغوا اور گمشدگی کے موقع پر متعدد افراد موجود تھے جو واقہ کے چشم دید گواہ ہیں لیکن تاحال ریاستی ادارے حسب سابق اپنے اس گھناؤنے جرم سے انکاری ہیں اور بی ایس او آزاد کے سینیئر وائس چیئرمین ذاکر مجید و دیگر تمام لاپتہ بلوچوں کی طرح بلوچ طلباء زاہد کو بھی یقینی طور پر خفیہ ریاستی عقوبت خانوں میں بدترین اور وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناے جانے کا خدشہ ہے۔
جبکہ دیگر لاپتہ بلوچوں کی طرح ممکن ہے کہ زاہد بلوچ کو بھی بے رحمانہ تشدد سے شہید کردیا جائے ان یقینی خدشات نے چیئرمین زاہد بلوچ کے ورثا لواحقین کے علاوہ بلوچ طلباء اور عوام میں بھی بے چینی اور غم وغصہ بڑ رہا ہے جس کا مظاہرہ لواحقین کی جانب سے سامنے آنے والے شدید ردعمل کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے