بلوچستان میں ہزاروں بچے برتھ سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے صحت اور تعلیم کی سہولیات سے محروم ہیں-
کئی دہائیوں سے اسلامی جمہوریہ ایران نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف جابرانہ اور امتیازی پالیسیوں میں مصروف ہے۔ ایران کے زیر دست ملک کا سب سے غریب ترین اور پسماندہ علاقہ کہلاتا ہے۔ بلوچستان کے ایک گاؤں میرآباد میں جہاں ایک طرف غذائی قلت بہت زیادہ ہے، جہاں لوگ کھیتی باڑی پر زندہ رہتے ہیں وہیں بہت سے بچے سکول نہیں جا سکتے کیونکہ ان کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔
ایران میں حکومتی اندازوں کے مطابق بلوچستان میں ایسے بچے موجود ہیں جن کے والدین دونوں بلوچ ہیں اور جن کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہیں انکی تقریباً تعداد 40,000 ہے جب کہ مقامی ذرائع ایسے بچوں کی تعداد تقریباً 80,000 سے 100,000۔ بتاتے ہیں-
بلوچ عوام کی شہادتیں ان کے دکھ کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہیں: خاص کر ان ماؤں کا دکھ جن کا سب سے بڑا خواب اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا ہے، انکی روداد یہ ہے کہ حکام نے ان کے ایرانی شناختی کارڈز کو ضبط کر کے انہیں بے اختیار چھوڑ دیا ہے۔
اس حوالے سے بلوچستان پیپلز پارٹی کے رہنما ناصر بلیدی کا کہنا ہے کہ اکثر جب بلوچ اپنے کاغذات کی تجدید کروانے یا شناختی کارڈ کے لیے درخواست دینے جاتے ہیں تو حکام ان کے پیدائشی سرٹیفکیٹس کو ضبط یا منسوخ کر دیتے ہیں۔ کچھ بلوچوں کا خیال ہے کہ یہ اقدامات بلوچوں کے ان افراد کو سزا دینے کے لیے کیے گئے ہیں جنہوں نے حکومت کے بلوچ مخالف پالیسیوں کو قبول نہیں کیا ہے-
ناصر بلیدی کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایسے اقدامات سے ایرانی حکام “ترقی کے نام پر خطے کی آبادی کو تبدیل کرنے، بلوچوں کو اپنے وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے ایک آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔” ان کے مطابق اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومت 20 سے 50 لاکھ افراد کو بلوچستان کے ساحلی علاقے میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔