نائجر کے صدر محمد بازوم کو ان کے اپنے صدارتی محافظ کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے کے صرف ایک ماہ بعد گذشتہ ہفتے گیبون کی فوج نے منتخب رہنما علی بونگو سے اقتدار چھین لیا اور انھیں گھر میں نظر بند کر دیا۔
یوں نائیجر اور گیبون فوجی بغاوتوں کے اس سلسلے کا حصہ بن گئے جو کہ حالیہ برسوں میں سب صحارا افریقہ، جو دنیا کے غریب ترین اور غیر مستحکم خطوں میں سے ایک ہے، میں رونما ہوئی ہیں۔
بغاوت کی تعریف عام طور پر فوجی یا دیگر سویلین حکام کی طرف سے مسندِ اقتدار پر براجمان رہنماؤں کو چلتا کرنے لیے کی جاتی ہے۔
اگرچہ مختلف ممالک کے آزاد ہونے کے بعد افریقہ میں ایسی بغاوتوں کی تعداد زیادہ تھی مگر 1960 اور 1990 کی دہائی کے درمیان اوسطاً ہر سال تقریباً چار فوجی بغاوتیں ہوئیں۔
سنہ 2000 سے شروع ہونے والی بغاوتوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں افریقہ میں ایسی فوجی بغاوتیں دوبارہ دیکھنے میں آئی ہیں۔
نائجر اور گیبون سے پہلے، یہ برکینا فاسو تھا، جہاں 2022 میں ایک نہیں بلکہ دو ایسی بغاوتیں ہوئیں۔
گذشتہ برس جنوری میں اس وقت کے برکائن کے صدر روچ مارک کرسچن کابورے کو فوج نے معذول کر دیا تھا، جس کے صرف آٹھ ماہ بعد 30 ستمبر کو نچلے درجے کے فوجیوں نے اپنے ہی کمانڈر کو معذول کر دیا تھا۔
سنہ 2020 اور سنہ 2021 کے درمیان پانچ افریقی ممالک میں بغاوتیں ہوئیں۔ ان ممالک میں چاڈ، مالی، گنی، سوڈان اور نائجر شامل ہیں۔ واضح رہے کہ مالی میں دو بار فوجی بغاوت ہوئی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیترس نے سنہ 2021 میں کہا تھا کہ فوجی بغاوتوں کا پھر سے دور دورہ ہے جبکہ بین الاقوامی برادری کے درمیان اتحاد کا فقدان پایا جاتا ہے۔
دو سال بعد بھی ان کے الفاظ درست ثابت ہوئے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی لہر کس وجہ سے ہے؟
غیرجانبدار متبادل حکومتی ماڈل
کیمرون کے سیاسی تجزیہ کار لیونارڈ ایمبولے کا کہنا ہے کہ بغاوت افریقہ میں ایک نیا رجحان بن گئی ہے۔
بی بی سی منڈو کے ساتھ ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ ’ہم مزید یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک الگ تھلگ معاملہ ہے۔
افریقی سیاست کے ماہر نے یقین دلایا کہ حالیہ برسوں میں جن ممالک میں بغاوتیں ہوئی ہیں وہاں کئی مستقل عوامل موجود ہیں۔
ان کے مطابق ’ان سب عوامل میں خراب گورننس، طاقت کا غلط استعمال، پست معیشیت اور کچھ معاملات میں ایسے لیڈر تھے، جنھوں نے انتخابات میں دھاندلی کی۔‘
لیونارڈ کے مطابق بہت سے افریقیوں کی فوج کو ایک قابل عمل متبادل کے طور پر دیکھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اقتدار سے بے دخل کیے گئے رہنماؤں میں سے بہت سے حکمرانوں نے کسی خاص نسلی گروہ یا علاقے کی حمایت کی تھی یا عوام کے بجائے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنی پارٹی پر زیادہ محنت کی ہے۔
’فوج کو ایک غیر جانبدار ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو قوم کے فائدے کے لیے کام کر سکتا ہے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.