اسلام آباد:
بلوچ سٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کی جانب سے پریس کو طالب علم بیبگر امداد بلوچ کی جبری گمشدگی اور آئے روز ملکی تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہونے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی- اس حوالے بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کی پریس بریفنگ کا متن درج ذیل ہے-
معزز صحافی حضرات
اج اس احتجاجی مظاہرے کے توسط سے ہم تمام صحافی حضرات، انسانی حقوق کے کارکنوں، زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، عدالتِ عالیہ اور حکومت وقت کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ بلوچ طلباء کے لئے حالات انتہائی تنگ کردیئے گئے ہیں۔ ہراسمنٹ سے لیکر اُنکی پروفائلنگ کرنے کے بعد میں انہیں جبری گمشدگی کا شکار بنا کر ان سے غیر انسانی سلوک روا رکھنا اور بدنام زمانہ سی ٹی ڈی جیسے اداروں کی جانب سے بلوچ طلباء پر مختلف واقعات کے بعد اجتماعی سزا کے طور پر انہیں جھلی کیسز میں پھنسا کر سنگین قسم کے الزامات لگانا اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ ان حالات نے بلوچ طلباء کی تعلیمی کیریئر داؤ پر لگا کر اُنکی زندگی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
حالیہ دنوں 27 اپریل کو بلوچ طالبعلم بیبگر امداد بلوچ کو لاہور کے تعلیمی ادارے پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل سے جبراً لاپتہ کیا گیا۔ بیبگر امداد، نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب(ساتویں سمسٹر) کے طالب علم ہیں، جو عید کی چھٹیاں گزارنے لاہور اپنے کزن کے پاس آیا تھا، جب 27 اپریل کی صبح 7:40 بجے نامعلوم افراد یونیورسٹی انتظامیہ کے ہمراہ آکر ہاسٹل نمبر 7 روم نمبر69 سے اُنہیں جبری طور پر لاپتہ کرتے ہیں۔ ویڈیو فوٹیج میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جبری گمشدگی کے وقت بیبگر امداد پہ تشدد کیا جاتا اور انہیں گھسیٹ کر لے جایا جاتا ہے۔ بلوچ طلباء کو پہلے تعلیمی اداروں میں ہراساں کیا جاتا ہے اور اس کے بعد جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے اور لاپتہ کرنے کے بعد ان پر دہشت گردی جیسے سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں۔
جب بیبگر امداد بلوچ کی غیر قانونی جبری گمشدگی کو لیکر بلوچ طلباء پنجاب یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریشن بلاک کے سامنے پر امن احتجاج کررہے تھے تو پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ اور پنجاب پولیس کی جانب سے بلوچ طلباء پر تشدد کر زدوکوب کیا گیا۔ پرامن احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور بجائے بلوچ طلباء کی آواز سنی جاۓ اُنہیں اسطرح تذلیل کرکے پرامن مظاہرین کی آواز دبانا ملک بھر میں بلوچ طلباء کے ساتھ تعصبانہ راویے کی عکاسی کرتا ہے۔
معزز صحافی حضرات!
بیبگر امداد بلوچ کی جبری گمشدگی اور اس غیر انسانی و غیر آئینی عمل کو جواز فراہم کرنے کے لئے سی ٹی ڈی (CTD) نامی ایک ادارہ بیبگر امداد کو کراچی میں پیش آنے والے ایک واقعے سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس بات کا اب تک نہ کوئی ثبوت سامنے لایا گیا ہے اور نہ ہی سی ٹی ڈی کی جانب سے کوئی ایف آئی آر یا وارنٹ پیش کی گئی ہے۔ جس کے سبب ہم اس عمل کو گرفتاری نہیں بلکہ جبری گمشدگی قرار دیتے ہیں۔ ملکی میڈیا پر سی ٹی ڈی کے نام پہ چلنے والی خبروں کی بھی ابھی تک کسی آفیشل ذرائع سے تصدیق نہیں کی گئی، جو بلوچ طلباء کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرتی ہے اور جس کے سبب بیبگر کی حفاظت کے حوالے سے ہم انتہائی پریشان ہیں۔
واضح رہے کہ پہلے بھی سی ٹی ڈی کی جانب سے حفیظ بلوچ کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا تھا۔ جو کہ ملک کے سب سے بڑے تعلیمی ادارہ قائداعظم یونیورسٹی میں ایم فل فزکس لاسٹ سمسٹر کے طالب علم ہیں۔ حفیظ بلوچ کومختلف زرائع سے مسلسل ہراساں کیا جاتا رہا اور بعد ازاں حفیظ بلوچ کو ضلع خضدار سے ایک نجی اکیڈمی میں دوران تدریس لاپتہ کیا جاتا ہے۔ ایک مہینے تک جبراً لاپتہ رہنے والے حفیظ بلوچ کو ایک مہینے بعد سی ٹی ڈی کی طرف سے دہشت گردی جیسے من گھڑت اور سنگین الزامات لگا کر ڈیرہ مراد جمالی کے پولیس تھانے میں منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ حفیظ بلوچ اور بیبگر امداد بلوچ کی جبری گمشدگی اور سی ٹی ڈی کی فعل ماضی کے پیشِ نظر بلوچ طلباء کے خدشات میں مزید اضافہ ہورہاے۔
تعلیمی اداروں سے لیکر ریاستی اداروں کے اس تعصبانہ رویے کی وجہ سے بلوچ طلباء زہنی دباؤ کا شکار ہیں اور اپنی ڈگریاں چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ جیسا کہ حالیہ دنوں لاھور میں تربت سے تعلق رکھنے والے دو طالب علموں کو تفتیش کے نام پہ دو بار جبری گمشدگی کا شکار بنا کر انہیں مختلف طریقوں سے ٹارچر کیا گیا جنہیں بعد ازاں کچھ دنوں میں رہا کردیا گیا۔ اسی ڈر اور خوف کے عالم میں مبتلا دونوں طالب علم مجبوراً اپنی ڈگریاں مکمل کیے بغیر واپس اپنے آبائی علاقے چلے گئے۔ گزشتہ دنوں غازی خان یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان میں بھی بلوچ طلباء طلبات کو مختلف زرائع سے ہراساں کیا گیا جہان اُنہیں اسٹڈی سرکل سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے اس ناروا سلوک کے خلاف بلوچ طلباء نے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ اور بلوچ طلباء و طالبات کی ہراسمنٹ کے روک تھام کیلئے پرامن مظاہرہ کیا لیکن پرامن احتجاجی مظاہرے کے ردِعمل میں بلوچ طلباء و طلبات کو انتظامیہ کی جانب سے یونیورسٹی سے برخاست کیا گیا۔ ہمیں یہ خدشات ہیں کہ اگر تعلیمی اداروں اور ریاستی اداروں کا یہی رویہ رہا تو بلوچ طلبہ کا پنجاب اور اسلام آباد میں اپنی تعلیمی سفر جاری رکھنا انتہائی مشکل ہوگی۔
ہم ایک بار پھر اس احتجاجی مظاہرے کے توسط سے ریاستی اداروں اور حکومت وقت سے اپیل کرتے ہیں کہ بیبگر امداد بلوچ کو جلد از جلد بازیاب کیا جائے اگر ان کے خلاف کوئی کیس ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرکے ثابت کیا جائے۔ اور ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی ہراسمنٹ اور پروفائلنگ جیسے اذیت ناک واقعات کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات اُٹھا کر بلوچ طلباء کو ڈر اور خوف جیسے ماحول سے نجات دلائی جائے۔ ہم آپ صحافی حضرات کی توسط سے یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں اگر طالبعلم بیبگر امداد بلوچ کو بازیاب نہیں کیا گیا تو مزید شدت سے احتجاج کرتے ہوئے تمام تعلیمی ادارے بند کریں گے-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.