حصہ دوئم:
نیشنل عوامی پارٹی(نیپ)کی حکومت سازشوں کےتحت ختم کردی گئی جس کے خلاف بلوچوں نے مزاحمت کی جسے کچلنے کے لئے آپریشن کاآغازکردیاگیاجس میں (مفروضوں کے مطابق )ہزاروں بلوچ قتل کئے گئے۔
لیکن ہزاروں میل دورانسانی بقااورحقوق کے چیمپئن دنیاپراپنی اجارہ داری کے خواب دیکھ رہے تھے اورجسے شرمندہ تعبیربھی ہوناتھا۔امریکہ بہ توسط سعودی عرب پاکستان میں ضیارجیم کوقائل کرچکے تھے کہ انہیں تاحیات اسلامی جمہوریہ کاغیرفانی امیرالمومنین متمکن کیاجائےگااگروہ خداکے منکرروسیوں کوافغانستان سے ہٹانے کے لئے جہادوقتال کی امامت کریں۔
سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ نے ایشیاسمیت پوری دنیاکی ہیئت بگاڑدی۔ اس جنگ نے خصوصی طورپرپاکستان، افغانستان،بنگلہ دیش اورمشرق وسطیٰ کے معاشرے اوراس کے ثقافتی اقدارکوتہہ وبالاکرکے مذہبی بنیادپرستی کواسلام کاآدرش بنادیا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ آزادی اظہارپرپابندی عائدکردی گئی۔ ان پابندیوں نے اردوادب کے منظرنامے میں کئی تبدیلیاں کیں جن کے اثرات بلوچی ادب اورزبان پربھی مرتب ہوئے ۔ علامتی شاعری اورافسانوں کے ذریعے مارشل لاء کے قوانین اورحکام کے خلاف نفرت کااظہارکیاگیا۔
افغان اسلامی جہادکے اثرات نے بلوچ معاشرے کواس کے جڑوں سے کاٹناشروع کردیا۔ سُنی اوروہابی اہل حدیث تفریق نے سراٹھایا۔ذگری نمازی کی تقسیم نے بلوچ قومی شناخت کی صدیوں پرانی یگانگت میں دراڑیں ڈال دیں۔ برہمن اورشودرروش کوبلوچستان میں پھیلادیاگیا۔ نئی نسل شایدان واقعات سے ناواقف ہوجب مولانافضل الرحمن کی جماعت کےجہادی کیچ کی سڑکوں پرٹائرجلاکرذگریوں کے خلاف پہیہ جام ہڑتال کرتے تھے۔ ان عوامل کے سبب کئی ذگری ملائی شیدائی خفیہ اداروں کے چوکھٹ پرسرنگوں ہوگئے اورآج تک اس دَرکے خاک کوسُرمے کادرجہ دیکراوربصیرت لیکرخوشحال زندگی گزاررہے ہیں۔
دریں اثنا70ءکی دَہائی کی بلوچ مزاحمت کوکچلنے کے بعدپاکستان کے خفیہ اداروں نے بی ایس اومیں پڑاؤکرتے ہوئے بلوچ قبائلی سربراہوں کے خلاف ذہن سازی کی بناڈالی اوراس کے نتائج بی ایس اوکے مزیددودھڑوں میں تقسیم پرمنتج ہوئے۔ ان عوامل کے سبب بلوچ عوام سیاست سے بدظن ہوتی رہی ۔ 80ءکی دہائی کے اختتام اور90ءکی دہائی کی ابتدامیں( جب سوویت یونین انہدام پزیرہواتھا۔)سیاسی قیادت سے مایوسی اورسیاسی بیگانگی کے سبب بلوچ نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادمنشیات کی پناہ میں چلی گئی۔اورپاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بلوچستان میں ایک نئے طبقے کوپروان چڑھانے کااہتمام کیاگیاجسے”واجہ ” “میر”،”معتبر””حاجی “کے القابات سے نوازکرالیکٹیبل قراردے دیاگیاجوآج بھی بزورقوت بلوچوں کے نمائندے بناکرصوبائی اورقومی اسمبلی میں بھیجے جاتے ہیں۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.