بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز جناب جسٹس عبداللہ بلوچ اور جناب جسٹس اقبال احمد کاسی پر مشتمل بینچ نے محکمہ تعلیم سے متعلق دائر کی گئی مختلف درخواستوں پر فیصلہ سنایا،معزز عدالت نے سی پی نمبر1065/2022 231/2022 اور1814/2012یکساں حقائق سے متعلق سوالات اورقانون پر مبنی ہونے کی بناء پر اس فیصلہ کے ذریعے نمٹا دیئے۔
معزز عدالت نے سی پی نمبر231/2022 میں حکومت بلوچستان اور جواب دہندگان کو حکم دیا کہ وہ ضلع آواران کے تمام بند سکولوں کو فعال کریں اور پورے بلوچستان بالخصوص ضلع آواران میں مرد و خواتین اساتذہ کی خالی اسامیاں تمام تر اقدامات اٹھاتے ہوئے تین ماہ کے اندر اندر پر کر یں مذکورہ سی پی کے حقائق کے مطابق پورے ضلع آوران بشمول تحصیل جھاؤاورماشکے میں 381سرکاری اسکولز ہیں جن میں 6 17 سے زائد سکول عرصہ دراز سے بند پڑے ہیں جس کے باعث ضلع کے باشندے بنیادی حقوق سے محروم ہیں علاوہ ازیں ضلع آواران میں گریڈ9 تا15کی مردوخواتین کے لیے581خالی آسامیاں موجود ہیں ۔
جبکہ گریڈ17کی مردو خواتین کے لیے 276 خالی اسامیاں مختلف سکولوں میں موجود ہیں ان مسائل کے حل کے لئے ضلع کے باشندوں نے جواب دہندگان تک رسائی کی لیکن ان کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔معزز عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین اور معزز عدالت عالیہ کے 86بلوچستان PLD214 کے فیصلہ کے تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ ریاست رنگ و نسل،مذہب،قومیت،جنس جائے پیدائش کے امتیازات کو بلا طاق رکھتے ہوئے اپنے تمام شہریوں کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے ۔
معزز عدالت نے سی پی نمبر1065/2022اور 1814/2012 میں فیصلہ سناتے ہوئے جواب دہندگان کو حکم دیا کہ وہ درخواست گزار سمیت ان تمام امیدواروں کے تعیناتی کے فوری احکامات جاری کر دیں جنہوں نے (EST،B-15) کے ٹیسٹ اور انٹرویوز کے لئے کوالیفائی کیا تھا اور جن کی ڈیپارٹمنٹل ریکروٹمنٹ کمیٹیز نے تعیناتی کی سفارش کی ہے مذکورہ بالا آئینی درخواستیں پورے بلوچستان کی فیمیل ایلیمنٹری سکول ٹیچر ز(ESTB-15)کی تعیناتیوں سے متعلق تھے جہاں جواب دہندگان نے 18 ستمبر 2020 کو ایک پریس پبلیکیشن کے ذریعے بلوچستان کے ہر ضلع میں (ESTB-15) پوسٹوں کو پر کرنے کے لئے اہل امیدواروں سے درخواستیں طلب کی تھیں معزز عدالت کی جانب سے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد عیاں ہوا کہ درخواست گزاروں اور دیگر امیدواروں نے مقررہ وقت میں ان پوسٹوں کے لیے درخواستیں دیں ان درخواستوں کی جانچ پڑتال کے بعد بذریعہ این ٹی ایس ٹیسٹ و انٹرویو منعقد ہوئے تھے۔
لیکن 9ماہ گزر جانے کے بعد این ٹی ایسNTS ٹیسٹ منعقد کروانے میں ناکام رہی جس کے بعد کنڈیڈیٹس ٹیسٹنگ سروس پاکستان کو یہ ٹھیکہ دیا گیا جس نے یہ ٹیسٹ منعقد کروائے درخواست گزاروں سمیت دیگر امیدواران نے یہ ٹیسٹ کوالیفائی کیا اور ہر ضلع کی ڈی سی آر(DCR) نے انٹرویوز لیا اور تعیناتیوں کے لیے اپنی سفارشات جمع کروائیں لیکن جواب دہندگان نے کسی نہ کسی بہانے سے درخواست گزاروں کی تقرریوں کے خطوط کوئی معقول وجہ بتائے بغیرروک دیئے معززعدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ یقینی طور پرکسی بھی محکمہ کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی۔
وہ درخواست گزاروں کے حق میں تقریری کے احکامات جاری کرنے سے انکار کرے یا اسے روکے کیونکہ پبلکیشن میں ایسی کوئی شرط نہیں تھی اور نہ ہی اس میں درخواست گزاروں کی کوئی غلطی ہے جو بھرتی کے عمل سے گزرے اور متعلقہ ریکروٹمنٹ کمیٹیوں نے ان کے ناموں کی سفارش کی معزز عدالت کو اس امر سے مطلع کیا گیا کہ ان درخواست گزاروں کے علاوہ متعلقہ ریکروٹمنٹ کمیٹیوں کی جانب سے متعدد امیدواروں کی سفارش کی گئی تھی لیکن ان میں سے صرف موجودہ درخواست گزاروں نے درخواستیں دائر کی ہیں معزز عدالت نے کہا کہ قانون کا مینڈیٹ ہے کہ مساوی افراد کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہئے لہذا اس طرح کی صورتحال سے دوچار فردیکساں سلوک کا مستحق ہے کیونکہ یہ ابتدائی اور بنیادی اصول ہے۔
جو قانون کے تحت مبنی بر انصاف ہے وہ تمام افراد جن کی متعلقہ DRCS نے سفارش کی ہے اگرچہ اس کیس میں پارٹی نہیں ہیں لیکن وہ ان درخواست گزاروں کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہیں لہذا وہ بھی اسی سلوک کے مستحق ہیں اور مساوی سلوک کا اصول ان کا حق ہے۔
لہذا زیر بحث لائی گی وجوہات اور عوام کے کے وسیع تر مفاد میں مذکورہ بالا آئینی درخواستوں کی اجازت دیتے ہوئے اس فیصلہ کا اطلاق ان تمام امیدواروں پر بھی ہوگا جنہوں نے ٹیسٹ اور انٹرویو کوالیفائی کیا اور متعلقہ DRCSنے میرٹ پر ان کی سفارش کی معزز عدالت نے فیصلہ کی کاپی چیف سیکرٹری بلوچستان اور سرکاری جواب دہندگان کی اطلاع وسختی سے تعمیل کیلئے بھجوانے کا بھی حکم دیا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.