بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے پبلک سروس کمیشن کے تحت ڈی ایس پی ، اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن آفیسر کے امتحانات کو خصوصی سی ایس ایس امتحانات کے بعد رکھنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ چیئر مین قادر علی نائل نے رولنگ دی ہے کہ سیکرٹری اسمبلی اس حوالے سے پبلک سروس کمیشن کو خط لکھیں کہ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں تاخیر کی جائے جبکہ بلوچستان کے دیگر تمام محکموں میں بھرتیوں کا عمل 31جولائی تک مکمل کیا جائے ۔
ارکان اسمبلی نے مردم شماری کے نتائج شائع کرکے نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کروانے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کو ایک گھنٹہ کی تاخیر سے پینل آف چیئرمین کے رکن قادر علی نائل کی صدارت میں ہواپشتونخوا میپ کے نصر اللہ زیرے نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے طلباءو طالبات گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کی تیاری کررہے تھے ایسے میں بلوچستان کیلئے تاریخ میں پہلی مرتبہ اسپیشل سی ایس ایس کے امتحانات ہونے جارہے ہیں جن میں مختلف وفاقی محکموں میں 48آسامیاں ہیں ہمارے طلباءو طالبات اس کی تیاری میں مصروف تھے ایسے میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن نے صرف ایک ماہ کی مہلت پر امتحانات کااعلان کیا ہے جس سے سپیشل سی ایس ایس کی تیاری کرنے والے نوجوانوں میں بے چینی پھیل گئی ہے وہ کم وقت میں دو امتحانات کی تیاری نہیں کرسکتے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو کم سے کم تین ماہ قبل امتحانات کا اعلان کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن وزیراعلی کے تحت ہے لہذا اسپیشل سی ایس ایس کے امتحانات کے بعد بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے امتحانات دسمبر میں منعقد کئے جائیں۔
صوبائی وزیر میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ ہمارے طلباءکو بہت ہی کم مواقع ملتے ہیں اب جبکہ ہمارے طلباءو طالبات کو اسپیشل سی ایس ایس کا ایک موقع ملا تو صوبائی پبلک سروس کمیشن کو وفاقی پبلک سروس کمیشن سے رابطے میں ہونا چاہیے تھا اور مشاورت سے امتحانات کے انعقاد کا فیصلہ کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ کہ نوجوانوں کو دونوں امتحانات میں شرکت کاموقع ملنا چاہیے لہذا صوبائی پبلک سروس کمیشن کے امتحانات دسمبر میں ہونے چاہیے۔
اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان کاکڑنے کہا کہ طلباءو طالبات گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے امتحانات کی تیاری کررہے ہیں انہیں مزید تیاری کیلئے کتنا وقت چاہیے ہوگا انہوں نے زور دیا کہ اسپیشل سی ایس ایس اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے امتحانات اعلان کردہ تاریخوں پر ہی ہونے چاہیے۔
اس موقع پر اجلاس کی صدارت کرنے والے پینل آف چیئرمین کے رکن قادر علی نائل نے کہا کہ ارکان اس مسئلے پر اتفاق رائے پیدا کریں پھر اس پر کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
بی این پی کے رکن ثناءبلوچ نے کہا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے تحت کمیشن کے امتحانات اور خصوصی سی ایس ایس امتحانات کی تاریخیں انتہائی قریب ہیں جس سے نوجوانوں میں خدشات پیدا ہورہے ہیں صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پبلک سروس کمیشن تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھ کر امتحانات کو نومبر تک ملتوی کردے تاکہ امیدوار بہتر تیار ی کر سکیں تب تک پبلک سروس کمیشن دیگر زیر التواءپوسٹوں پر بھرتی کا عمل شروع کردے۔
انہوں نے کہا کہ لائبریریوں میں پوسٹوں پربھرتی کا عمل تاخیر کا شکار ہے اسمبلی کی مدت مکمل ہونے تک اس عمل کو مکمل کیا جائے۔
جس پر چیئر مین قادر علی نائل رولنگ دی کہ سیکرٹری اسمبلی پبلک سرو س کمیشن کے چیئر مین کو خط لکھیں کہ پبلک سروس کمیشن ڈی ایس پی ، اسسٹنٹ کمشنر اور سکیشن آفیسر کے امتحانات کی تاریخ میں توسیع کرے ،انہوں نے رولنگ دی کہ 31جولائی تک بلوچستان کے لائبرریوں سمیت دیگر تمام محکموں کی خالی آسامیوں پربھرتی کا عمل مکمل کرتے ہوئے تعیناتی کے آرڈر جاری کئے جائیں۔
اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ طویل عرصہ بعد کوئٹہ میں اراضی کی سیٹلمنٹ کا سلسلہ شروع ہوا ہے تاہم کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں اراضی کی سیٹلمنٹ کے مسئلے میں بے قاعدگیوں کی اطلاعات ہیں سیٹلمنٹ کو احسن طریقے سے مکمل کیا جائے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ کوئٹہ میں طویل عرصے بعد سیٹلمنٹ کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تاہم اس میں بے قاعدگی ہورہی ہے ایک موضع کی سیٹلمنٹ کے بعد دوسرے میں سیٹلمنٹ کاعمل ہونا چاہیے اور تمام اراضی جدی پشتی مالکان کے نام ہونی چاہیے لیکن یہاں اسٹام پیپر پر بھی سیٹلمنٹ کی اطلاعات ہیں،انہوں نے زور دیا کہ پہلے اراضی زمینداروں کے نام منتقل کی جائے اور اس کے بعد اگر کسی نے زمین خریدی ہے تو مالکان اراضی انہیں اسٹام پیپر یا دوسرے طریقے سے اراضی منتقل کریں،انہوں نے کہا کہ حقیقی مالکان کی کسی صورت حق تلفی نہیں ہونی چاہیے ورنہ لوگ دست وگریبان ہونگے، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں مقامی قبائل کی اراضی پر کیو ڈی اے دو سکیمیں بنا رہی ہے اس سلسلے کو روکا جائے،انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینئر ایم بی آر کو اسمبلی بلا کر اس حوالے سے بات کی جائے۔
جس پر پینل آف چیئرمین کے رکن قادر علی نائل نے سینئر ایم بی آر کو 25جولائی کو بلوچستان اسمبلی طلب کرنے کی رولنگ دی۔
اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناءبلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ نئی مردم شماری اور اس کے تحت اسمبلی کی نشستوں این ایف سی میں وسائل کی تقسیم اور دیگر حوالے سے ایک مشترکہ قرارداد جمع کرائی تھی جو آج کی کارروائی میں شامل نہیں انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان کے عوام نے مردم شماری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مردم شماری کسی بھی ملک میں مالی وسائل کی تقسیم اور دیگر حوالے سے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں آبادی کی بنیاد پر این ایف سی میں وسائل کی تقسیم قومی و صوبائی اسمبلی میں نشتوں کاتعین وفاقی محکموں میں ملازمتوں میں کوٹہ مقرر کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان روز اول سے این ایف سی کے تحت وسائل کی تقسیم کے لئے آبادی کو بنیاد بنانے کی بجائے فارمولے کی تبدیلی کی بات کرتا آیا ہے مگر اس پر عمل نہیں ہورہا نئی مردم شماری کی بنیاد پر بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں میں اضافہ ہوگا بلوچستان 75سال سے محرومیوں کاشکار رہا ہے اس لئے ہمیں قرار لے کر آئے تھے انہوں نے زور دیا کہ نئی مردم شماری کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے وسائل کی تقسیم اور نئی حلقہ بنیاد کی جائیں۔
صوبائی وزیر خزانہ انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ یہ بات کی ہے کہ وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ نصف وسائل آبادی اور نصف رقبے کی بنیاد پر تقسیم ہونی چاہیے میرے حلقے میں مردم شماری درست نہیں ہوئی جس پر ہمارے تحفظات ہیں جو متعلقہ حکام کے پاس تحریری طور پر جمع کرادیئے ہیں ہم مردم شماری کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے قلعہ عبداللہ کثیر نفوس پر مشتمل ہے مگر اس کی درست مردم شماری نہیں ہوئی پہلے ہمارے تحفظات دور کئےجائیں۔
پشتونخوا میپ کے نصر اللہ زیرے نے کہا کہ ہماری جماعت نے بھی حالیہ مردم شماری کے نتائج کو مسترد کیا ہے کیونکہ کوئٹہ جو صوبے کا سب سے بڑا آبادی والا شہر ہے اس کی آبادی گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں پانچ لاکھ کم ہوکر 17لاکھ ہوگئی ہے ہم ایسے نتائج کو کس طرح تسلیم کرسکتے ہیں لہذا قرار داد میں صوبے میں تمام حلقوں کی درست مردم شماری کے نتائج سامنے لانے کا مطالبہ کیا جائے اس مسئلے پر بیٹھ کر مشاورت اور اتفاق سے قرار داد لانے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ نئی مردم شماری کے حوالے سے ہماری قرار داد آج کی کارروائی میں شامل نہیں صوبے کے جن جن حلقوں میں مردم شماری درست نہیں ہوئی وہاں کیلئے کمیٹی بنائی گئی تھی اور مردم شماری کیلئے بار بار وقت بھی دیا گیا تھا جس کے بعد کوئٹہ کی آبادی اب 36لاکھ ہو گئی ہے اگر اب بھی صوبے کے کسی علاقے میں مردم شماری درست نہیں ہوئی تو ہم اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ وہاں پر درست مردم شماری کی جائے یہ بات درست نہیں کہ نئی مردم شماری میں صوبے کے چند اضلاع کی آبادی میں اضافہ ہواہے بلکہ تقریبا تمام حلقوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے کسی ضلع میں زیادہ تو کسی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اگر نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں تو ہماری اسمبلیوں کی نشستیں بڑھ جائیں گی۔
صوبائی وزیر میر اسد اللہ بلوچ نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آبادی بڑھنی چاہیے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے لیکن مردم شماری بھی حقیقی بنیادوں پر ہونی چاہیے پلاننگ کے تحت پنجاب کی آبادی 12کروڑ ظاہر کی گئی ہے اصل مدعا یہ ہے کہ ہمارا استحصال، ظالم اور ذیادتی جہاں سے ہورہی ہے ہم اسکی نشاندہی کریں۔انہوں نے کہا کہ وسائل کا بڑا حصہ پنجاب لے جاتا ہے مردم شماری میں بلوچستان کی آباد بڑھنے سے اسحاق ڈار اور احسن اقبال کو کیوں تکلیف ہے ہماری 2کروڑ 10لاکھ آبادی انہیں قبول نہیں ہے ہمیں آپس میں اختلاف کے بجائے دیکھنا چاہیے کہ ہم نے کیا کھویا اور کا پایا ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں لوگ مطمئن نہیں وہاں دوبارہ مردم شماری کروائی جائے کسی کے ٹیلی فون پر اسمبلی کی قرار داد نکالنے کی مذمت کرتے ہیں اسپیکر کو ایسا نہیں کر نا چاہیے تھا انتخابات میں پیرا شوٹ کے ذریعے لوگوں کو یہاں لایا جائے گا یہ سلسلہ نہیں ہو نا چاہیے ملک کی بقاءجمہوریت میں ہی ہے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.