:کوئٹہ
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچ سماج کے گھاٹوپ اندھیروں میں کریمہ بلوچ نے دور سے روشنی دیکھی اور اس کے لیے لڑتی رہی، اس لڑائی میں ان کا وجود ٹورنٹو کے ندی میں ختم کردیا گیا مگر ان کی آواز ٹورنٹو سے لے کر گوادر تک بلند ہے، کریمہ صرف ایک کردار نہیں ہے بلکہ ان کا کردار مختلف حصوں میں بٹا ہوا ہے وہ ایک باغی عورت تھی، جس نے سرزمین اور قومی شناخت کی خاطر جدوجہد کی۔
انہوں نے کہا کریمہ بلوچ جدوجہد کی نئی تاریخ ہے ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم کریمہ کے عہد میں زندہ ہیں، یہ شناخت کی جنگ ہے اسے شہداء نے آگے بڑھایا ہے یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوسکتی شہید محراب خان نے انگریز سے شناخت کی جنگ لڑی اور کریمہ نے اسی کا تسلسل برقرار رکھا، کوئی لفظ کوئی جملہ کوئی نظم کریمہ کو بیان نہیں کرسکتی،
پروفیسر ڈاکٹر رحیم مہر نے کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ بانک کریمہ بلوچ صرف ایک سیاسی لیڈر نہیں تھی بلکہ ایک سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ وہ ایک افسانہ نگار اور قلم کار بھی تھی۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں بلوچ وطن کا نوحہ لکھا، بلوچ درد و ازیت کو بیان کیا اور گمشدہ بچوں کی عکاسی کی وہ افسانوں اور ادبی فن پاروں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما شہید پروفیسر ارمان لونی کی بہن وڈانگہ لونی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق اور انسانی شناخت کے لیے کریمہ بلوچ نے قربانی دی، اپنی قوم کی طرف سے بلوچ سرزمین کی بیٹی کو سلام پیش کرتی ہوں، پشتون اور بلوچ اقوام اپنے ایسے فرزندوں کی قربانی کو خراج دے کر یاد کریں۔ حاکم و محکوم اور ظالم و مظلوم کا ایک سلسلہ ابد سے چل رہا ہے اس کا سبب استحصال ہے۔ پشتون اور بلوچ سمیت محکوم اقوام کے درمیان قومی مفادات کے لیے اتحاد لازمی امر ہے۔
سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے معروف بلوچ دانشور دین محمد بزدار نے کہا کہ بلوچستان کو محکوم رکھ کر اس کے وسائل اور معدنیات کی لوٹ کھسوٹ کی گئی ہے، بلوچ وطن کو ایک اکائی کے طور تسلیم نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ حاکم قوت نے اپنی لوٹ مار کے خلاف آواز اٹھانے پر طاقت کا استعمال کیا اور ایک خوف کی فضاء پیدا کی بلوچ جدوجہد اور بانک کریمہ نے بلوچ ازہان پر خوف و ڈر کا خاتمہ کیا، کریمہ بلوچ نے بلوچ عورت کو سیاست میں متحرک کردیا کیونکہ عورت کی جدوجہد کے بغیر سیاست کامیاب نہیں ہوسکتی، کریمہ بلوچ کے والدین سلام کے لائق ہیں جنہوں نے بلوچ قوم کو کریمہ جیسی بیٹی عطا کی۔ کریمہ بلوچ نے جدوجہد اور قربانی کی بدولت سرزمین کا حق ادا کیا، ان کا مشن اور ان کی منزل قومی حقوق کا حصول یا انصاف رسائی تھا۔
بی ایس او کے مرکزی جنرل سیکرٹری بلوچ ماما عظیم نے کہا کہ بلوچ پسماندہ سماج میں کریمہ بلوچ جیسی وژنری سیاسی رہبر کا سامنے آنا حیران کن نہیں ہے کیونکہ بلوچ سماج سیاسی طور پر ہمیشہ مضبوط رہا ہے،
انہوں نے کہاکہ کالونیل ریاستوں میں صرف ایک قوم کی برتری ہوتی ہے۔
باقی تمام اقوام زیر دست ہوتے ہیں، کریمہ بلوچ میں حالات کو فیس کرنے کی جرائت تھی، سخت ترین حالات اور الزام تراشیوں کے باوجود کریمہ بلوچ کھڑے رہے، ان میں لیڈرشپ کی تمام صلاحیتیں تھیں، انہوں نے کبھی خود کو اداروں سے بالاتر نہیں سمجھا اس لیے یہ سبق ہر سیاسی کارکن کو جان لینا چاہیے کہ ادارے ہی سب سے بالاتر ہیں ہمیں اداروں کا احترام کرنا چاہیے یہی کریمہ کا فلسفہ ہے۔
این ڈی پی کے مرکزی رہنما رشید کریم بلوچ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی مفادات پر ہم سب کو سیاسی اور فروعی اختلافات سے بالا ہوکر ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے، بانک کریمہ اور بلوچ شہداء نے معمولی مفادات کے لیے نہیں بلکہ قومی مفادات کیلئے قربانیاں دی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم اپنے قومی مفادات پر بہ حیثیت قوم اور سیاسی کارکن کوئی کمپرومائز نہ کریں اور نا ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ء ہوں ہمیں قومی اجتماعی مفادات پر یکمشت ہونا چاہیے اپنے تماشائی خود نہ بنیں کیوں کہ تماشائی غیر ہوتے ہیں، کریمہ بانک بہت بڑا نام ہے اس کے کردار پر بولنا چھوٹے لوگوں کا کام ہی نہیں ہے
سیمینارکے آخر میں بلوچ وومن فورم کے چیئرپرسن اور سیمینار کے آرگنائزر بانک زین گل نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.