دھرنے میں اس وقت چالیس کے قریب لواحقین موجود ہیں، جن میں چھوٹے بچے اور بوڑھی عورتیں شامل ہیں، اسی دوران دوران مزید لواحقین نے بھی دھرنے کو جوائن کیا تھا –
احتجاجی دھرنے کو تین ہفتے مکمل ہونے کو ہیں لیکن اب تک کسی اہم ریاستی عہدیدار نا ان کو رجوع کیا ہے نا مطالبات کی منظوری میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے -ریاستی ادارے اور اعلیٰ زمہ داران کی طرف سے غیر سنجیدگی اور مطالبات کی منظوری میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے کو آ رہا ہے، دھرنے پہ بیٹھے بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ہمارا دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ملک کے مقتدرہ عسکری ادارے کا سربراہ آکر ہمیں نا سنیں گے. وہ آکر ہمیں یقین دہانی کرائیں کہ ہمارے پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا اور ہمارے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے گا، ہمارے شروع دن سے یہی مطالبات رہے ہیں، ہم اپنے جائز مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھیں گے اور ساتھ ساتھ احتجاج کے تمام تر زرائع بروے کار لائیں گے –
واضح رہے کہ محرم الحرام کی سیکیورٹی کے پیش نظر کوئٹہ میں موبائل فون نیٹورک بھی بند کر دیئے گئے ہیں، جس سے دھرنا کے حوالے سے بروقت معلومات ملنا بھی مشکل ہے، دھرنے میں شریک بیشتر لواحقین کی طبیعت اب خراب ہو رہی ہیں، موسم کی شدت اور بیس دنوں سے مسلسل باہر بیٹھنے اور ناقص کھانے پینے کی وجہ سے ان کو شدید مشکلات کا بھی سامنا ہے –
ان فیملیز کو سالوں سے جبری لاپتہ اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے شدید خدشات لاحق ہیں، زیارت سانحے کے بعد یہ خدشات اور خطرات نے شدت اختیار کیا ہوا ہے اور فیملیز اپنے گھر نہیں بیٹھ سکتے –