اداریہ:
حال ہی میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ گوادر جنوبی بلوچستان کا دارلخلافہ ہوگا. یہاں چند حقیقت پسندانہ مقاصد ہوسکتے ہیں جو فوجی حکمران گوادر کو جنوبی بلوچستان کا دارالحکومت قرار دینے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں یا تو یہ کسی پوشیدہ ایجنڈے کے حصول کے لئے ایک جال ہو سکتی ہے.
سیاسی معنوں میں ، لفظ دارالحکومت یا دارلخلافہ کا مطلب وہ شہر یا قصبہ ہوتا ہے جو کسی ملک یا خطے کے سرکاری اور انتظامی مرکز کے طور پر کام کرتا ہے. لیکن یہاں اس لفظ کی تعریف کا کوئی بھی حصہ گوادر پر بحیثیت جنوبی بلوچستان کا دارالحکومت ہونے کے لاگو نہیں ہوتا. جنوبی بلوچستان نامی کوئی خطہ وجود نہیں رکھتا. گوادر نہ تو ایک ملک ہے اور نہ ہی ایک صوبہ۔ یہ پاکستانی صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے۔ پاکستان کے زیرانتظام بلوچستان کے مختلف علاقوں کو سیاسی، تاریخی اور جغرافیائی طور پر کچ گندھاوا ، توران ، رخشان اور مکران کہا جاتا ہے۔ پھر اس طرح کی اصطلاحات ترتیب دینے یا اس طرح کے اقدام کا اعلان کرنے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟
١- اس اقدام کا قریب ترین منطقی انجام بلوچستان کو یا تو دو یا تین حصوں، جنوبی وسطی، اور مشرقی بلوچستان، میں تقسیم کرنے کا آغاز ہوسکتا ہے کیونکہ ایک کیک کو ٹکڑون میں کھانا زیادہ آسان اور ذائقہ دار ہوتا ہے. اور پھر تقسیم کرو اور حکمرانی کرو ایک آزمودہ فارمولہ ہے جسے قابض قوتین پوری تاریخ میں اپناتے آئے ہیں. اگر گوادر کو جنوبی بلوچستان کا دارالحکومت قرار دینے کا اصل مقصد یہی ہے تو پھر اس سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کویقینن کافی فائدہ ہوگا. بلوچستان کی تقسیم کے نتیجے میں فوج کے مزید اڈے بنیں گے، فوج کے لئے زیادہ فنڈز اور فوج کے زیر کنٹرول زیادہ سیاستدان اور اسمبلیاں بنیں گی۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اعلان بلوچوں کے رد عمل کا اندازہ لگانے کیلئے ایک اقدام ہوسکتا ہے. اس اقدام کے خلاف کچھ مظاہرے ہوسکتے ہیں، احتجاجی جلسے ہو سکتے ہیں اور کسی حد تک عام ہڑتال کی کال بھی دی جا سکتی ہے. البتہ موجودہ صورتحال میں واحد متحرک بلوچ قوم پرست جماعت کی صورت میں بلوچستان نیشنل پارٹی ) بی این پی ( اس تفرقہ انگیز منصوبے کے خلاف زبردست مزاحمتی مہم چلانے کی پوزیشن میں شاید نہیں ہے، لہٰذا سیاسی اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے لئے رکاوٹ نہیں بنے گی۔
٢- گوادر کو چین پاکستان اقتصادی راہداری )سی پیک( کا ایک اہم حصہ قرار دینے کے ساتھ ہی، فوجی افسران نے پراکسیوں کے ذریعہ ضلع گوادر میں تقریبا 90 فیصد زمینیں خرید لیں۔ تجارتی اور رہائشی منصوبے کاغذ پر بنائے جاتے رہے اور بڑے پیمانے پر انکی تشہیر کی جاتی تھی. جعلی اشتہاروں کے ذریعے قومی، یوروپی، اور امریکی میڈیا پر گوادر کو مستقبل کے دبئی کے طور پر پیش کرتے ہوئے، پاکستانی تارکین وطن کمیونٹی کو ہزاروں پلاٹ اور سیکڑوں ایکڑ اراضی مہنگے داموں خریدنے پر للچا کر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم، گوادر کی آئندہ کی شایاں شان مستقبل کے بارے میں سیمینارز اور کانفرنسوں کا اہتمام کرنے کے باوجود ، فوج کو ضلع میں ان کے زیادہ تر قبضہ کردہ زمینی جائدادوں کے لئے خاطر خواہ خریدار نہیں مل سکے۔ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی چالوں کا مشاہدہ کرنے والے کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ اقدام زمین کے خریداروں کو آمادہ کرنے کی ایک چال ہو سکتی ہے کیونکہ اس اعلان کے ساتھ ہی زمینوں کی قیمتیں میں کچھ ہفتوں کےلیے اضافہ ہو سکتا ہے
٣- کچھ مبصرین یہ قیاس آرائی بھی کرتے ہیں کہ چونکہ ریاست کی جانب سے لئے گئے قرض پر سود کی ادائیگی کا بوجھ ریاست کے لئے اب ناقابل برداشت ہے، لہذا ان قرضوں کی ادائیگی کی جگہ گوادر کو ایک علیحدہ حیسیت دیکر چائنیز کو بحری اڈے کے طور پر لیز پر دینے کا منصوبہ ہوسکتا ہے۔ تاہم، خطے میں مغربی طاقتوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات قابل فہم نہیں ہے. کیونکہ پاکستان بنیادی طور پر آئی ایم ایف کا مقروض ہے جو مغربی طاقتوں کے لئے ایک سیاسی آلہ کے طور پر کام کرتا ہے. حال ہی میں پاکستانی کابینہ نے آئی ایم ایف کو ملک میں ٹیکس جمع کرنے اور ملک کے لئے سالانہ بجٹ بنانے کا اختیار دینے کی ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری دی ہے. گوادر کے جغرافیائی محل وقوع کے سبب مغربی طاقتوں یا ہندوستان کے لئے خلیج فارس کے دہا نے پر چینی بحری اڈے اور صنعتی احاطے کی موجودگی قابل برداشت نہیں ہے. پاکستان کا گوادر کو چائنیز کو لیز پر دینے کا مطلب پورے خطے کو ان کے حوالے کرنا ہے. چونکہ مغربی صنعتی ممالک کے لئے تیل اب بھی توانائی کا بنیادی وسیلہ ہے اس لئے وہ چائنیز کو تیل کے راستے پر قابو پانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔
تو ضلع گوادر کے لئے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ ضلع گوادر کے حوالے سے پاکستان کے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حقیقی عزائم اور حکمت عملی جاننے کے لئے آنے والے مہینے اہم ہیں۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.