تجزیاتی رپورٹ/تجزیہ کار:اسداللہ
معروف بلوچ مسلح مزاحمت کاراوربلوچ نیشلسٹ آرمی کے سربراہ گلزارامام کی پاکستان کی خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتاری اوراس کے بلوچ مسلح مزاحمت پرپڑنے والے اثرات کاجائزہ معروف بلوچ صحافی اسدبلوچ نے مختلف تجزیہ کاروں،صحافیوں کے آرااوراپنی اینالائسزپرمبنی تجزیاتی رپورٹ میں پیش کیاہے۔جسے بلوچستان افیئرزکے قارئین وسامعین کے لئے پیش کیاجارہاہے ۔
بلوچستان میں رواں شورش کے دوران سرگرم علیحدگی پسند کمانڈر گلزار امام کی گرفتاری سے بلوچستان کی موجودہ شورش یا مسلح تحریک کس قدر متاثر ہوسکتی ہے، اس بارے میں مختلف لوگوں کے مختلف آرا ہیں، پاکستان کی باقی صوبوں یا مین اسٹریم میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور دانش ور طبقے کا اس پر تجزیہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگاروں سے یکسر مختلف اور جدا ہے۔
معروضی حالات سے زیادہ مطابقت بھی بلوچستان کے تجزیہ نگاروں کی آرا ہیں۔ اس کا ایک سبب وہ زمینی حقائق ہیں جن کا روز مشاہدہ کیا جاتا ہے اور دوسری بلوچ تحریک میں براہ راست آنے والے متواتر نشیب و فراز ہیں جو ان لوگوں کی آنکھوں دیکھے ہیں۔
گلزار امام جنگی حالات اور جبر سے متاثر ایک عام طالب علم کارکن سے مسلح مزاحمت کار، کمانڈر اور پھر ایک مسلح تنظیم کے سربراہ بنے اس لیے ان کے بارے میں سطحی تجزیہ سے بہت سی چیزیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔
علیحدگی پسند مزاحمت کار کے ساتھ گلزار امام بلوچ تحریک کو ریڈیکل وژن دینے اور اسے شخصی اجارہ داری سے نکال کر عام افراد کی تحریک بنانے والے دوسرے بڑے نام ہیں۔
بلوچستان کے حالات پر نگاہ رکھنے والے مقامی تجزیہ نگاروں کے مطابق نواب اکبرخان بگٹی کے پوتے براہمدغ بگٹی کی تنظیم بلوچ ری پبلکن (بی آر اے) میں ہوتے ہوئے گلزار امام نے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو متاثر کیا اور انہیں مزاحمتی تحریک سے جوڑنے میں کامیاب ہوئے۔ بی آر اے کو مکران میں اپنے سیاسی اثر رسوخ کی بنیاد پر گلزار امام نے کافی منظم کیا مگر بطور کمانڈر ان کی گرفت دوسری تنظیموں کی نسبت قدرے ہلکا یا ڈھیلا دیکھا گیا جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ ایک لیڈر تھے جو اپنی اثر پذیری سے اپنے گرد نوجوان اکٹھے کرسکتے تھے لیکن ان کی تنظیم پر گرفت اور کمانڈ کافی کمزور تھے۔ مکران میں بی آر اے نے گلزار امام کے کمانڈر ہوتے ہوئے کافی سنگین غلطیاں کیں، منشیات کی مبینہ اسمگلنگ کے الزامات سے لے کر عام لوگوں کے قتل تک بی آر اے کے مزاحمت کاروں پر کئی الزامات لگے جن میں قابل ذکر ضلع گوادر سے تربت آنے والے لیویز فورس کے قافلے پر حملہ جس میں ایک تحصیل دار اور 6 سپاہیوں کی ہلاکت کے علاوہ سرکاری افسران کا اغوا جن کی (سائیجی کے علاقے میں )ایک آپریشن میں ہلاکت جیسے واقعات شامل ہیں جس کاعوامی ردعمل دیکھاگیااوراس کے مزاحمتی تحریک پر کافی منفی اثرات پڑے۔
بلوچستان کے سیاسی حالات سے باخبر حلقوں کا خیال ہے گلزار امام کی انہی کمزوریوں کا سبب ان کی گرفتاری کا بھی بناہوگا، ان کی گرفتاری کے اسباب سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ ایک بہترین اور اثر پزیر جنگی مزاحمت کار یا کمانڈر تو تھے البتہ لیڈر شپ کی اپنی الگ صلاحیت اور جدا وژن ہوتا ہے جو لازمی نہیں ہے کہ ایک مزاحمت کار میں ہوں۔
گلزار امام کی گرفتاری سے بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کس قدر متاثر ہوسکتی ہے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماضی کے ایک بلوچ دوست سیاسی رہنما کے مطابق جیسا پاکستانی دانشور یا صحافی خیال کررہے ہیں ایسا کچھ منفی اثر نہیں پڑے گا البتہ اس گرفتاری کا جو زیادہ نقصان ہوگا وہ ان کی نوزائیدہ تنظیم کو کمزور یا ختم ہونے کی صورت میں اٹھانا پڑے گا۔
بلوچ تحریک پر کام کرنے والے ایک مقامی صحافی کے مطابق گلزار امام کی گرفتاری ان کی اپنی محدود صلاحیت اور کمزوری کا سبب ہے اس کا اثر صرف اور صرف وہی تھا جو گلزار کی گرفتاری کے بعد یکے بعد دیگرے بی این اے کے کئی سرمچاروں کی ڈرون اسٹرائیک میں قتل کی صورت میں ہوا۔ مجموعی صورت میں بلوچ تحریک اس کے نقصانات سے بہرحال محفوظ رہے گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کسی کمانڈر یا تنظیمی سربراہ کی گرفتاری یا قتل سے قومی تحریک کو نقصان ہوتا تو بالاچ مری کے بعد مزاحمتی تحریک ختم ہوجاتا لیکن بالاچ کی شہادت یا اکبر خان بگٹی کے بعد تحریک کو مذید ایندھن ملا اس کی وجہ بلوچ تحریک کے اندر موجود جنگی حالات پر صحیح گرفت رکھنے والے لیڈرشپ کی قابلیت تھی جو اب مزید مستحکم اور باصلاحیت نظر آرہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جدیدجنگی ٹیکنالوجی کے مدمقابل بلوچ مزاحمت کاروں کے لئے کئی ایک چیلنجزپیداہوئے ہیں جن سے نبردآزماہونے کے لئے بلوچ قیادت جدیدحربی طریقوں پرعمل تنظیموں سے بہت کچھ سیکھ سیکتے ہیں ۔
جدیدٹیکنالوجی نے جغرافیائی قیدوبندکی تمام بندشیں ختم کردی ہیں اب جاسوسی کے حربوں کوکئی ایک چیلنجزدرپیش ہیں۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.