تربت:
نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی نے بارڈر بندش کے خلاف احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ نیشنل پارٹی سرحدی تجارت پر پابندی کے فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک چلائے گی،جعلی رپورٹس کی آڑ میں بارڈر بندش قبول نہیں، بارڈر تجارت سے ملکی معیشت نہیں ڈوبی ہے، بارڈر سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اسے اسمگلنگ کانام نہیں دیاجاسکتاہے، اسمگلنگ روکنا ہے تومنشیات، چینی اور کھاد کی سمگلنگ روکی جائے، سرحدی تجارت کو باقاعدہ قانونی شکل دیاجائے، ان خیالات کااظہار انہوں نے پیر کے روزتربت پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہاکہ بارڈر کاروبار سے دہشت گردی کے فروغ کی باتیں بے بنیاد ہیں بلکہ بارڈر کاروبار بندش سے دہشت گردی، بدامنی اورجرائم میں خطرناک اضافہ ہوسکتاہے کیونکہ اس وقت کیچ میں 50ہزار سے زائد گاڑیاں براہ راست بارڈر سے منسلک ہیں لوگوں نے اپنی جمع پونجی اور زیورات بیچ کر یہ گاڑیاں خریدے ہیں اگر بارڈر پر بندش رہی تو یہ تمام خاندان متاثرہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کو ملک کے طاقتور حلقوں نے عملاً تجربہ گاہ بنایا ہوا ہے اور یہ تجربات گزشتہ 76سالوں سے جاری ہیں ملک کا سیاسی نظام کیا ہونا چاہیے ملک کی معیشت کو کیسے درست کیا جائے ان تجربات نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے تک کے مقام تک پہنچایا ہے۔ آج ملک کا کوئی ادارہ بھی ٹھیک طریقے سے کام کرنے کے قابل نہیں،ملک اس وقت تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ملکی معیشت کی حالت انتہائی ناگفتہ اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سخت ترین شرائط پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ملکی برآمدات صفر پر ہیں جبکہ برآمدات کے لیے ہمارے پاس فارن ایکسچینج نہ ہونے کے برابر ہے ہمسایہ اور دوست ممالک کے تعاون سے یہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے مہنگائی آسمان کو پہنچ گیا ہے روزگار کے ذرائع انتہائی محدود ہوتے جارہے ہیں ملکی صنعت خام مال کے درآمدات پر پابندی کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے روپے کی قدر روز بہ روزگرتی جا رہی ہے عوام کو ریلیف دینے کے تمام مواقع روز بہ روز محدود ہوتے جارہے ہیں ایسی صورتحال میں ملک کے بین الاقوامی سرحدوں پر آباد لوگ شدید معاشی بدحالی و مشکلات میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاں زندگی کی تمام آسائشیں ناپید ہیں روزگار کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں، لوگ دو وقت کی روٹی مشکل سے نکالتے ہیں، ملک کی مشکل ترین معاشی صورتحال میں بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ ہے جہاں زندگی کے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں نہ صنعتیں ہیں اور نہ زراعت کا نہری نظام موجود ہے یہاں خشک سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں سی پیک کے خوش کن ترقیاتی عمل کا کہیں وجود نظر نہیں آرہا ہے۔
بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں بسنے والوں کی گزر بسر گلف ممالک میں ملازمتوں پر منحصر تھی اب وہ بھی نہیں رہی،بلوچستان پہلے سے مشرف کی لگائی گئی آگ میں جل رہاہے اب ایسے فیصلے اور اقدامات بلوچستان میں جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوسکتے ہیں، یہ ایک بہت بڑی اوربھیانک غلطی ہے اس لئے ریاست کو سمجھنا چاہیے کہ وہ کتنی بڑی غلطی کرنے جارہی ہے جان محمد بلیدی نے کہاکہ بلوچستان کے عوام کی آخری امید اور سہارا محدود پیمانے پر ہونے والی سرحدی تجارت پر تھی جو دنیا بھر میں سرحدی علاقوں میں آباد افراد کو میسر رہتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ریاست پاکستان نے ایران اور افغانستان کے مشترکہ سرحدوں کے اس کاروبار کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے اس سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں آباد لاکھوں افراد بری طرح متاثر ہورہے ہیں وفاقی حکومت اور وفاقی ادارے جس کاروبار کو سمگلنگ کا نام دے کر بند کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے لوگوں کا جائز کاروبارہے سرحدی تجارت ہمارے لوگوں کی زندگیوں کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی روزی پیدا کرتے ہیں لیکن وفاقی سیکیورٹی کے ادارے، کسٹم اور دیگر ادارے اسمگلنگ کے بہانے اربوں کی کرپشن کرتے ہیں،حکومتوں کے نمائندے جو سرحدوں پر تعینات ہیں اسمگلنگ اور غیر قانونی کاروبار کے وہی خالق ہیں اپنے گھناؤنے کاروبار پر پردہ ڈالنے کے لیے مقامی لوگوں کے محدود پیمانے پر ہونے والے سرحدی تجارت پر قدغن لگانے اور اپنے ناجائز سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مقامی افراد کے کاروبار کو متاثر کرنے کے درپے ہیں، مقامی لوگوں کے محدود پیمانے پر ہونے والے کاروبار سے ریاست اور اس کی معیشت ہر گز متاثر نہیں ہورہی ہے۔
ریاست پاکستان اور ملکی معیشت شوگر و فرٹیلائزر اور ڈالر کی سمگلنگ سے متاثر ہورہی ہے اس پر کوئی قدغن نہیں،وہ کاروبار پاکستان کے وفاقی اداروں کی پشت پناہی میں جاری ہے، ان کاروبار سے ہمارے لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہے ریاستی ادارے اپنی کمزوریوں اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تیل اور کھانے پینے کی اشیاء پر پابندی عائد کرکے ہمارے عوام کو بے جاہ تنگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
گوادر میں غیر قانونی ماہی گیری اور ٹرالرنگ پر لوگ ایک عرصے سے سراپا احتجاج ہیں چونکہ وہاں حکومتی ادارے خود ملوث ہیں اس پر کریک ڈاؤن نہیں کیا جاتا ہے منشیات سرعام سمگلنگ ہوتی ہے اور شہروں میں بااثر شخصیات نے اڈے بنائے ہیں اس پر کاروائی نہیں ہورہی ہے، منشیات، شوگر، فرٹیلائزر، چھالیہ اور ڈالر سگلنگ جیسے غیر قانونی کاروبار جاری ہیں پابندی ہے تو ایرانی تیل اور کھانے پینے کی اشیاء پر ہے کیونکہ اس کاروبار میں بااثر شخصیات اور مافیا ملوث نہیں ہیں،سرحدی کاروبار اور تجارت پر رکاوٹ و پابندی ہرگز قبول نہیں ہے۔
ریاست اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، اس فیصلے سے لاکھوں خاندانوں کا روزگار متاثر ہورہا ہے لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوتے جارہے ہیں نگراں حکومت سرحدی تجارت پر سے پابندی فوراً ہٹائیں سرحدی کاروبار کو قانونی تحفظ فراہم کریں اس پابندی کے انتہائی بھیانک اثرات سماج پر اثر انداز ہورہے ہیں ایسے غیر منطقی اور غیر فطری فیصلوں سے کرپشن و بے روز گاری اور دہشت گردی بڑھنے کے امکانات میں مزید اضافہ ہوگا،انہوں نے اعلان کیاکہ نیشنل پارٹی سرحدی تجارت پر پابندی کے فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک چلائے گی۔
انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اور کاروباری اداروں سے اپیل کی کہ وہ سرحدی تجارت پر پابندی کے خلاف نیشنل پارٹی کی تحریک کا ساتھ دیں۔
پریس کانفرنس میں نیشنل پارٹی کیچ کے صدر مشکور انور بلوچ، بی ایس او پجار کے مرکزی چیئرمین بوہیر صالح،مرکزی کمیٹی کے رکن باہوٹ چنگیز، نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن محمدجان دشتی، فضل کریم، فداجان بلیدی، رجب یاسین، طارق بابل، احسان درازئی، ولی جان نعیم، حفیظ علی بخش، حاجی محمد ہاشم، محمد عظیم بلیدی، سبزل خان کولواہی، حبیب بلوچ، جہانگیر شہداد،علیم بلیدی، یونس جاوید، عبدالمجید بزنجو، اکرام گچکی، محمد عصاء، بہارہاشم سمیت دیگربھی موجودتھے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.