نصیر بلوچ
آواران پاسپورٹ آفس کا تعمیراتی کام 2017 سے مکمل ہوچکا ہے البتہ عملہ نہ ہونے کی وجہ سے آفس تاحال بند ہے۔ آواران گرلز کالج ماشی کو مکمل ہوئے دوسال ہوچکے ہیں لیکن اب تک اسٹاف کی تعیناتی ممکن نہیں ہو پائی ہے جس کے باعث تاحال گرلز کالج غیر فعال ہے۔ دو ماہ قبل وزیراعلی میر عبدالقدوس بزنجو نے آواران اوتھل یونیورسٹی کیمپس کی منظوری دی ہے لیکن تعمراتی عمل شروع نہیں ہوا ہے لیکن گزشتہ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ بلڈرنگ کی تعمراتی کام عمل میں ضرور لائی جائے گی لیکن یہ عمل مکمل ہونے کے بعد معمول کی طرح یونیورسٹی غیرفعال ہی رہے گی۔ عبدالقدوس بزنجو سے آج تک غیر فعال پروجیکٹس بحال نہیں ہوسکے اس کے برعکس اب جب بلدیاتی الیکشن کا شوشہ ہے تو کئی مزید پروجیکٹس کا اعلان کرچکے ہیں۔ جناب عبدالقدوس بزنجو کو شاید نہیں معلوم کہ الیکشن کے وقت ٹینڈرز کی باقاعدہ نوٹیفیکشن کا اجرا کرنا غیر آئینی عمل ہے۔ آواران کے کئی رہائشیوں کا ماننا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کی سیاست ایک مورثی سیاست ہے۔ لیکن ڈی سی آواران جمیل احمد بلوچ نے کیا کیا کہ ٹینڈرز نوٹیفیکیشن ڈسٹرکٹ ڈی سی آفیشل پیج پر چلا دیئے جوکہ بہت افسوسناک عمل ہے۔ اس سے بلوچستان کمیشن کے امتحانی معیار پر سوال اٹھ رہا ہے۔ ڈی سی اور باقی آفیسراں اسی چیز سے نالاں ہیں کہ عبدالقدوس وزیراعلی بلوچستان ہے لہذا وہ انکے حکم کے تابع ہیں۔ اس لئے اِن دنوں انتظامیہ عوامی خدمتگار نہیں بلکہ وزیراعلی کے کہنے کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ آفیسر اپنے سینئر آفیسراں کو جوابدہ نہیں گزشتہ دنوں آواران کے تحصیل جھاو میں جنگلات کی کٹائی جو کہ زور و شوروں سے جاری ہے اور ٹرک لوڈ کرکے باہر لیجائے جارہے ہیں اس کے متعلق جب آواران پریس کلب کے صدر شبیر لانگو نے جنگلات کے آفیسر کو فون کیا اور انہیں اس سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے قانونی جرائد کی ایک کاپی مانگی تو اس پر آفیسر کا کہنا تھا کہ اگر ڈی سی کاپی مانگے تو میں اس کو بھی کاپی نہیں دوں گا آپ کون ہوتے ہیں۔ خیر یہ رویہ میرے لئے کچھ نیا نہیں تھا چونکہ یہی رویہ وزیراعلی کے پسِ پشت ان آفیسراں کے لئے ہوتا ہے۔
حالیہ چاغی واقعہ ایف سی اور مظاہرین کے درمیان رونما ہوا لیکن وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس نے ڈی سی اور اے ڈی سی کو معطل کیا۔ پھر کہا گیا اس طرح کے کیسسز میں جہاں کاروائی کا عمل جلد ممکن نہ ہو وہاں عوامی غم، غصہ و جذبات کو سہارا دینے کے لئے اس طرح کے اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ پچھلے کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر علاقہ میں زیر تعمیر روڑ کے غیر معیاری مواد کے استعمال کرنے کے خلاف خبر گردش کررہی ہے لیکن تاحال انتظامیہ کے جانب سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ واقعی غیر معیاری مواد کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک ماہ قبل نوٹیفیکیشن جاری ہوا تھا کہ آواران کو 18 گھنٹے بجلی کی فراہم کی جائے گی جبکہ رمضان کے پہلے دن سے ہی بجلی کبھی آتی ہے تو کبھی نہیں اکثر اوقات بجلی غائب ہی رہتی ہے۔ لیکن علاقہ مکینوں کی روداد سننے والا کوئی نہیں اور اب تو سیاسی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ وزیر اعلی عبدالقدوس بزنجو کے حلقے آواران میں ترقیاتی فنڈز کی خردبرد کے بعد اربوں کی تربت سٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹس فیز 3 کی پرونشل ڈیلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے فیصلوں میں تبدیلی کرکے اسے بدنام زمانہ اربن ڈیلپمنت ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے خردبرد کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔