بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ سائیکالوجیکل وار کے زریعے طلباء کو تعلیمی اداروں میں حراساں کرنا بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم حفیظ بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کرنے سے پہلے کئی مرتبہ یونیورسٹی کیمپس کے اندر انہیں حراساں کیا گیا۔ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے بلوچ طلباء اپنے علم کے پیاس کو بجھانے کیلئے اسلام آباد اور دیگر تعلیمی اداروں کو رخ کرتے ہیں جہاں انکو متعصبانہ نگاہوں سے دیکھ کر حراساں کیا جا رہا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک رویہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ طلباء معاشی اور دیگر مختلف سائیکالوجیکل وار کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اپنے تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں مزکورہ تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کے ساتھ متعصبانہ رویہ رکھنا اور انہیں تعلیمی اداروں میں حراساں کرنا کسی صورت میں برداشت نہیں۔ حکومت وقت کو سنجیدگی سے حفیظ بلوچ، سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ سمیت دیگر ماورائے عدالت لاپتہ بلوچ طلباء کی باحفاظت بازیابی کیلئے اقدام اٹھانا چاہئے۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال کا سیاسی حل نکالنے کیلئے تمام طلباء تنظیموں کو مل کر ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جدوجہد کرنے ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء پر آئے روز مختلف ہتکھنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے انہیں تعلیم سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کیا جا رہا ہے۔ آئے روز بلوچ طلباء کو پریس کلب کے سامنے اور سڑکوں پر احتجاج کرنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے اس گھٹن سی کیفیت میں طلباء کے تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
مرکزی ترجمان نے بی ایس سی اسلام آباد کی طرف سے جاری کردہ احتجاجی کال کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے تمام ممبران اس شعوری عمل کا حصہ بن کر 21 مارچ کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں کلاسز کا احتجاجاََ بائیکاٹ کریں۔
دوسری جانب بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کی جانب سے اعلان کردہ ملک گیر کلاسز بائیکاٹ کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا کہ طالبعلموں کی جبری گمشدگی ایک المیہ بن چکی ہے اور اس میں شدت نہایت ہی تشویشناک ہے۔ لہذا اکیس مارچ کے اعلان کردہ کلاسز بائیکاٹ کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور بلوچستان کے دیگر طلبا تنظیموں سے اس بائیکاٹ کا حصہ بننے کی درخواست کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان جہاں ایک پسماندہ اور شرہ خواندگی کے حوالے سے ابتر صوبے کے طور پر جانا جاتا ہے وہیں ہزاروں کی تعداد میں طالبعلم علمی پیاس بجھانے کےلیے پنجاب سمیت دیگر صوبوں کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کے ساتھ مسلسل متعصب اور غیروں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جہاں ان طالبعلموں کو ماضی میں متعصب رویوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ آج ان کو پروفائلنگ جیسے غیر آئینی اور غیر قانونی عمل کا مرتکب کیا جا رہا ہے۔ اِن تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالبعلموں کو پروفائلنگ کرتے ہوئے اُن کے آبائی علاقوں میں ماورائے عدالت جبری طور پر گمشدہ کیا جا رہا ہے جس کی واضح مثال قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طالبعلم حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی ہے جنھیں اُن کے آبائی شہر خضدار سے ماورائے عدالت جبری طور پر گمشدہ کیا گیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے گزشتہ سال یکم نومبر کو دو طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو ماورائے عدالت جبری طور پر گمشدہ کیا گیا۔ طلبا تنظیموں کی جانب سے گمشدہ کیے گئے طالبعلموں کی باحفاظت بازیابی کےلیے تین ہفتوں کا طویل احتجاجی دھرنا دیا گیا اور حکومتی یقین دہانیوں کے بعد احتجاجی دھرنا موخر کیا گیا۔ اب جبکہ دونوں طالبعلموں کی جبری گمشدگی کو پانچ مہینوں کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے لیکن طالبعلم تاحال بازیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اب جبکہ حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے گزشتہ دو ہفتوں سے احتجاجی دھرنا جاری ہے لیکن حکومت وقت کسی قسم کا سنجیدہ اقدام اٹھانے سے قاصر ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ طالبعلموں کی ماورائے عدالت جبری گمشدگی ایک تعلیم دشمن پالیسی ہے جو جامعات میں زیر تعلیم طالبعلموں میں خوف و ہراس کا موجب بن رہا ہے۔ اس طرح کے غیر آئینی عمل کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے ملک گیر کلاس بائیکاٹ اقدام کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور بلوچستان سمیت ملک بھر کے دیگر طلبا تنظیموں سے درخواست کرتے ہیں جامعات میں جاری غیر آئینی عمل کے تسلسل کو روکنے کےلیے اس مہم کا باقاعدہ حصہ بنیں۔