غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کے طلباء نے آج ایک پریس کانفرنس میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بلوچ طلباء سمیت بلوچ پروفیسر کے ساتھ روا رکھے گئے نا مناسب رویے پر تفصیلی بات کی- طلبا کا کہنا تھا کہ انہیں تعلیمی سرگرمیاں بشمول اسٹڈی سرکل منعقد کرنے پر یونیورسٹی سے معطل کیا گیا- اس حوالے سے طلباء کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس کا متن درج زائل ہے:
غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان میں 27 اپریل کو قبائلی علاقوں کے بلوچ طلباء کے اسٹڈی سرکل بعنوان ” ٹرائیبل ایریا میں تعلیمی مسائل ” کررہے تھے جس میں بیس سے زائد طالبعلم حصہ لے رہے تھے جن میں پانچ فیمیل طالبات بھی شریک تھیں۔ اسٹڈی سرکلز کا مقصد معاشرے کےلیے طالبعلموں کی تربیت کرنا ہے تاکہ وہ اچھے انسان بنیں اور معاشرے کےلیے اپنا کردار ادا کریں۔
ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سوشالیوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر علی تارڑ کی سربراہی میں اسٹڈی سرکل پر دھاوا بولا گیا اور فیمیل طلباء کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئ۔ فیمیل طالبات کی تصاویر اور وڈیوز بنائیں۔ اسٹڈی سرکل میں موجود طلباء و طالبات پر غلط الزامات لگاتے رہے۔ اور پھر سیکورٹی انچارج اور گارڈز کو کو بلا کر فیمیل طالبات کے موبائل فون چھینے گئے، انہیں دھکے دیے گئے، نامناسب زبان کا استعمال کیا گیا۔
جس کے بعد جب طلباء نے اپنے بہنوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ہراسمنٹ کے خلاف احتجاجاً مین گیٹ پر دھرنا دیا تو انتظامیہ نے پولیس، ڈالفن فورس اور اپنے گارڈز کر ذریعے طلباء پر تشدد بھی کی۔ لیکن پھر ضلعی انتظامیہ کی ثالثی میں طالبعلموں اور انتظامیہ کے درمیان مزاکرات ہوئے اور ملوث استاد کے خلاف کاروائ کےلیے انکوائری کمیٹی کی یقین دہانی کرائ گئی جس پر طلباء نے اپنا احتجاج ختم کیا۔
معزز صحافی حضرات!
اگلے روز انکوائری کمیٹی بنانے کی بجائے انتظامیہ کی جانب سے انہی طالبعلموں کو شوکاز نوٹسز دیے گئے اور طلباء و طالبات کی انفرادی انکوایری کئ گئ۔ انہی طلبا ء و طالبات سے غیر متعلقہ سوالات کیے گئے اور سوالنامے فل کروائے گئے۔ اس سے اگلے دن چوبیس گھنٹوں کے اندر یونیورسٹی نے آٹھ بلوچ طالبعلموں کو یونیورسٹی سے بے دخل کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ اس کے ساتھ ایک بلوچ پروفیسر جنہوں نے طلباء کے حق میں فیسبک پر ایک پوسٹ لگائ انہیں بھی یونیورسٹی سے ٹرمینیٹ کردیا گیا۔ یہ پورا عمل یونیورسٹی کی طرف سے آٹھتالیس گھنٹوں کے اندر کیا گیا۔ یونیورسٹی کی جانب سے کسی بھی قسم کی انکوائری کمیٹی نہیں بنائ گئی اور بغیر تحقیق کے آٹھ طلباء کو یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا۔ جن میں کئی طلباء کو شوکاز نوٹسز بھی نہیں دیے گئے۔
معزز صحافی حضرات!
یونیورسٹی سے بے دخل کیے گئے تمام طالبعلموں کا تعلق قبائلی علاقہ جات سے ہے اور وہ ہر ہفتے یونیورسٹی کے اندر اپنے علاقے میں تعلیمی سہولیات اور مسائل کےلیے گروپ ڈسکشنز کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن غازی یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلباء و طالبات کو غیر نصابی اور شعوری سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کی پاداش میں یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا۔
30 اپریل کو تنظیم کی جانب سے بلوچ طلباء و طالبات اور پروگیسر رفیق قیصرانی کی بحالی کےلیے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جو کہ کالج چوک سے ہوتے ہوئے یونیورسٹی مین گیٹ پر پہنچ کر احتجاجی کیمپ کی شکل اختیار کر گئی۔ غازی یونیورسٹی گیٹ کے سامنے احتجاجی کیمپ دس گھنٹے سے زائد رہنے کے بعد ضلعی انتظامیہ کی جانب سے طلباء کو یقین دہانی کرائ گئی کہ عید کی چھٹیوں کے بعد یونیورسٹی کھلتے ہی طلباء کو بحال کردیا جائے گا۔ جس پر طلباء کی جانب سے احتجاجی کیمپ 06 تاریخ تک موءخر کی گئی۔
آٹھ دن سے زائد گزرنے اور ضلعی انتظامیہ کے دیے گئے ڈیڈلائین گزر جانے کے بعد ابھی تک کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوئ۔ یونیورسٹی کی جانب سے ابھی تک طالبعلموں کے بحالی کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی بھی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ ضلعی انتظامیہ اور حکومتی نمائیندگان کی جانب سے یقین دہانیوں کے علاوہ ابھی عملی طور پر کوئ اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم اپنے آئیندہ لائیحہ عمل میں 11 مئی بروز بدھ گرینڈ احتجاجی مظاہرے کا اعلان کرتے ہیں۔ احتجاجی مظاہرے میں ایک ریلی کالج چوک سے شروع ہو کر یونیورسٹی مین گیٹ تک نکالی جائی گئی اور پھر غازی یونیورسٹی مین گیٹ پر احتجاجی کیمپ لگا کر دھرنا دیا جائے گا۔ ہم ضلعی انتظامیہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کو 11 تاریخ تک کی مہلت دیتے ہیں کہ وہ اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل کریں اور جلد ازجلد طلباء کو دوبارہ بحال کریں۔ ورنہ ہم اپنے پرامن احتجاج کے تمام حقوق کو استعمال کریں گے۔