پنجگور آرگنائزنگ کمیٹی کی جانب سے گورنمنٹ ڈگری کالج کےآڈیٹوریم میں لٹریری فیسٹول کا انعقاد کیا گیا جس میں پنجگور کے معزز اساتذہ کرام سیاسی وسماجی شخصیات کے علاوہ طلبہ وطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی. فیسٹول کے مہمانان ڈپٹی کمشنر پنجگور عبدالرزاق ساسولی، سٹلمنٹ آفیسر مکران محمد یونس سنجرانی، بلوچ دانشور اور استاد رحیم بخش مہر، اے آر داد، ملا مراد، ایجوکیشن آفیسر امجد شہزاد، میڈم فرزانہ، میڈم حاجرہ قیوم، بانک افسانہ ،میڈم نازیہ، آفتاب اسلم، عطاء مہر اور دیگر شامل تھے. جبکہ فیسٹول کے انتظامات آرگنائزنگ کمیٹی کے شاہ میر شمس بلوچ، نصرت خان، چاکر بلوچ، اقبال ظہیر، نیاز اکبر اور عادل بلوچ کے زمہ تھے.
فیسٹول میں مکالمہ اور دیگر ثقافتی شو بھی پیش کیئے گئے اور یہ پروگرام پنجگور میں اپنی نوعیت کا منفرد اس حوالے سے تھا کہ جس میں طلبہ کے ساتھ طالبات بھی کثیر تعداد میں شریک رہیں فیسٹول میں نظم وضبط بھی مثالی تھا شرکاء کے لیے طعام کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، کتاب جاہ بھی لوگوں کی دلچسپی کا مرکز بنارہا مختلف معلوماتی کتابیں اسٹال پر سجائی گئی تھیں فیسٹول میں خواتین کے معاشرتی کردار اور حقوق پر بھی سیر حاصل بحث ومباحثہ کی گئی.
فیسٹول کے مہمان خاص رحیم بخش، مہراے آر داد اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے لیے رابعہ خضداری بانڑی رول ماڈل ہیں جن کے نقش قدم پر چل کر دیگر خواتین بھی نام کما سکتی ہیں انہوں نے کہا کہ زبان اور ثقافت معاشرے کی اہم جز ہیں جنکے بغیر کوئی بھی معاشرہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ہے بلوچ معاشرہ کو کافی چیلنجز کا سامنا ہے، یوتھ اگر اس میں موثر کردار ادا کرے تو اس کے مثبت پہلو ہر طرف نمودار ہوجائیں گے اور یوتھ کو اپنی زمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور کتاب دوستی کے کلچر کو عام کرنا ہوگا.
انہوں نے کہا کہ کتاب ایک ایسی چیز ہے جس سے نہ صرف ہمیں رہنمائی مل سکتا ہے بلکہ معاشرے میں تبدیلی کا زریعہ بھی ہے انہوں نے کہا کہ سیاست اور معشیت دونوں لازم وملزوم ہیں اگر کسی ایک میں سکم رہ جائے تو معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکے گا، انہوں نے کہا کہ معاشرتی ترقی اور شعور پھیلانے میں شاعری کے ساتھ ساتھ ایک آرٹسٹ کا بھی اہم رول ہوتا ہے آرٹسٹ اپنے آرٹ کے زریعے جس طریقے سے معاشرے کی منظر کشی کرتا ہے وہ حقیقت پسندی پر مشتمل ہوتا ہے ایک آرٹسٹ کسی دوسرے انسان کی اندرونی کفیت اور احساسات کو اپنے آرٹ کے زریعے نمایاں کرتا ہے انہوں نے کہا کہ والدین ٹیچرز سیاست علمائے کرام غرض ہر وہ اسٹیک ہولڈر جس کے زمہ معاشرے کی بہتری ہے اگر وہ اپنے کاموں میں جبر کا ماحول پیدا کریں گے تو اس کے منفی اثرات سے پورا معاشرہ ڈپریشن زدہ بنے گا، ڈپریشن میں کوئی بھی اپنا کام بہتر طریقے سے سرانجام نہیں دے سکے گا.
مقررین نے کہا کہ ہمارے یوتھ کو اپنا ایک ٹارگٹ چوز کرنا ہے جس تعلیمی نصاب کے سائے تلے ہم تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے جو نہ صرف معیاری ایجوکیشن کے آگے رکاوٹ ہے بلکہ اس نصاب کے زریعے ہم اس سطح پر نہیں پہنچ سکتے جس سطح پر ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے. انہوں نے کہا سماجی تبدیلی اس وقت آسکتا ہے جب یوتھ علم کی طرف راغب رہے گا بلاشبہ کسی بھی قوم کے لیے ان کی روایات مقدم ہوتی ہیں مگر ان روایات کو بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ جب ہم آہنگ بناکر چلیں گے تب ہم ترقی یافتہ قوموں کی صفوں میں خود کو موجود پائیں گے ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ ہم خود کو فرسودہ روایتوں کی بندھن میں قید کرکے یہ توقع رکھیں کہ وقت کا پہیہ ہمارے بغیر نہیں چل سکے گا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں یوتھ کو اپنی زبان ثقافت کو زندہ رکھنے کے ساتھ کتاب کے کلچر کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے اور پروگرام کے آخر میں مشاعرہ اور سازوزیمل کا بھی اہتمام کیا گیا جو رات گئے جاری رہا.
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.