بلوچستان اکیڈمی تربت میں کیچ کے ادباء، شعرا، سماجی و سیاسی شخصیات اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہم شخصیات کا اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس نے بلوچستان میں مادری زبانوں کی تعلیم، مادری زبانوں (بلوچی، براہوی، پشتو) کی تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے حوالے سے غور کیا گیا اور اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ موجودہ دور حکومت میں بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ نے اسکولوں کے لیے کتابوں کی چھپائی بند کردی ہے اور اس حوالے سے جلد آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کئی دہائیوں سے کالج سائیڈ میں بلوچی کے لیکچرارز کی پوسٹیں پیدا نہیں کی گئی ہیں، اس کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی اور اس حوالے سے جلد ڈیٹا اکھٹا کرکے متعلقہ حکام سے ملاقات کے بعد اس مسئلے کو بھی اٹھایا جائیگا۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کی منشور کے مطابق دنیا میں کسی بھی زبان کے اقوام کو انکی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا قانونی حق ہے۔ اجلاس کے شرکاء نے مادری زبانوں کی ترقی کے لیے ایک آرگائیزنگ کمیٹی تشکیل دی جسے بلوچی میں ماتی زبانانی دیمروئی مجلس کا نام دیا گیا۔کمیٹی کا آرگنائیزر پروفیسر ڈاکٹر غفور شاد کو مقرر کیا گیا جبکہ آرگنائیزنگ کمیٹی کے ممبران میں گلزار احمد گچکی، فضل بلوچ، الطاف بلوچ شامل ہیں۔
اجلاس نے بلوچستان اسکالرز فورم کے مطالبات کی مکمل حمایت کی اور کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہیکہ وہ تعلیم کے شعبے میں خود پالیساں بنائے۔اس حوالے سے جلد آگاہی مہم کا آغاز کیا جائیگا اور مقتدرہ سے ملاقات، سیمینار کے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا گیا جبکہ عنقریب ضلع گوادر اور پنجگور کے ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات سے ملاقات کرکے بلوچستان میں بلوچی، براہوی اور پشتو زبان میں تعلیم کے تسلسل کو شروع کرنے اور اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیز میں مقامی زبانوں کے پڑھانے کے لیے پوسٹس مشتھر کرنے کیلئے مہم کا آغاز کیا جائیگا۔
اجلاس میں پروفیسر غنی پرواز، ڈاکٹر غفور شاد،عبدی خان بجّار، عبید شاد، الطاف بلوچ، آل پارٹیز کیچ کے ڈپٹی آرگنائیزر ظریف ذدگ، شگراللہ یوسف، فضل بلوچ، زاہد حسین، مقبول ناصر، عارف عزیز، امین ضامن بلوچ، جمشید غنی، جمال پیر محمد، عابد علیم، اسداللہ بلوچ، عباس حسن، جلب خالق، سالم لتّار نے شرکت کی۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.