جامعہ بلوچستان کے ٹریژرار جیند خان جمالدینی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں کئی سال سے مالی مشکلات کا سامنا کررہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ماہانہ تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی میں بیشتر یونیورسٹیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے بجٹ کو 2016-17کی سطح پر منجمد کیا گیا ہے۔ جبکہ اس دوران تنخواؤں اور پنشن کی مد میں اضافہ ہوا ہے اور اس مد میں یونیورسٹیوں کو کوئی اضافی رقم ادا نہیں کی گئی ہے۔موجودہ مالی سال کے بجٹ کے لئے وفاقی وزارعت خزانہ اور ایچ ای سی کے جوائنٹ اسسمنٹ کمیٹی کے سامنے ایک سو ستاسٹھ یونیورسٹیوں نے اپنے بجٹ پیش کئے۔ جسے مختلف کٹوتیوں کے بعد 104.983ارب روپے پر سفارشات کے ساتھ بجٹ میں منظوری کے لئے پیش کیاگیا۔ مگر بد قسمتی سے 104.983ارب روپے کے بجائے ایچ ای سی کا بجٹ 65ارب روپے منظور کیا گیا۔ جو کہ اٹھتیس فیصد کم ہے۔ جس سے مالی مشکلات بدستور برقرار بلکہ زیادہ شدید ہوگئے ہیں۔ان کی وجہ سے یونیورسٹی آف بلوچستان کو ماہ جولائی کی تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی میں دشواری کا سامنا ہے۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹی کو پہلی سہ مائی کی مد میں 315ملین روپے ادا کرنے تھے۔ جبکہ صرف 105ملین روپے کی پہلی ادائیگی کی گئی ہے۔ جبکہ ایک مہینے کی تنخواہ اور پنشن کی کل رقم 195ملین روپیہ بنتی ہے۔طلبہ کے معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی اپنی فیس بڑھانے سے قاصر ہیں تاکہ اپنی آمدنی کو بڑھاسکیں۔ جو کہ یونیورسٹیوں کا واحد زریعہ آمدن ہے۔ صوبائی حکومت ہر سال اپنے بجٹ سے صوبے کی یونیورسٹیوں کوسالانہ گرانٹ دیتی ہے۔ مگر اس سال اس مد میں بھی گرانٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ نئی یونیورسٹیاں بھی قائم ہوئی ہیں۔ یونیورسٹی کی مالی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی اور وفاقی حکومت سے درخواست کی جاتی ہے کہ ان کے سالانہ گرانٹ کو بڑھایا جائے اور بلوچستان یونیورسٹی کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بیل آوٹ پیکج دیا جائے۔ جس کے لئے وفاقی حکومت کو پہلے ہی درخواست کی گئی ہے۔ تاکہ تنخواؤں اور پنشنر کے مالی مسائل کو حل کیا جائے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.