وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ سے سردار علی محمد قلندرانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم پارلیمانی کمیشن کے سربراہ سردار اختر مینگل اور دیگر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ 18 فروری 2011ءمیں ایف سی اور اے ٹی ایف کا آپریشن ہوا جس میں ہمارے جوان اور پیر بزرگ تقریباً 35، 40 افراد کو لے کر گئے، بعد میں کچھ دنوں اور مہینوں میں کچھ لوگوں کو چھوڑا، جس میں 10 افراد تا حال لاپتہ ہیں۔ جس میں میرے تین بیٹے ہیں، باقی میں میرے بھانجا اور بھتیجا اور دیگر بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے بھی 2010ءمیں بھی خضدار سے ہمارے بندے لے گئے، کوئٹہ سے بھی لے گئے، ہم دلبرداشتہ ہوگئے اور مایوس ہوگئے ہیں، اب ہمارے دل میں تھوڑی امید جاگ گئی ہے کہ شاید اب کچھ ہوگا، 2011 ءمیں آپریشن ہوا، 2012ءمیں ہمارے اوپر سویلین مسلط کیے گئے، توتک میں ڈیتھ اسکواڈ کے بندے بٹھائے گئے، پورا علاقہ یرغمال ہوا، کوئی ریاستی رٹ نہیں تھی وہاں پر، 2012ءسے 2013ءتک یہ لوگ اپنی مان مانیاں کرتے رہے، 2014ءکو توتک سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں، اور انہی کے کیمپوں سے برآمد ہوئیں جو لوگ وہاں پر رہائش پذیر تھے، کوئی ڈیڑھ سے دو سو کے قریب لاشیں تھیں جو برآمد ہوئیں، ہمیں بھی وہاں جانے نہیں دیتے تھے، آج تک ان کا ڈی ا ین اے ٹیسٹ بھی نہیں ہوا اگر ہوا بھی تو منظر عام پر نہیں آیا، ہمیں خدشہ ہے کہ ہمارے جتنے لوگ مسنگ پرسنز میں ہیں ان ہی لاشوں میں ان کی لاشیں نہ ہوں، صرف دو آدمی جو جھاﺅ سے ان کی شناخت ہوئی، میرے گھر کے 16 افراد لاپتہ ہوئے جو ابھی تک لاپتہ ہیں، ایک بزرگ 70 سالہ جو میرے چچا اور 8 سال کا بچہ جو کہ میرا بھانجا ہے وہ بھی لاپتہ ہے، ان لوگوں نے کیا کیا ہوگا، آٹھ سال کا بچہ کیا کرسکتا ہے۔ ہم ان لوگوں کی بازیابی کیلئے صرف دعائیں کرسکتے ہیں، اللہ سردار اختر مینگل کی عمر میں برکت دے، ہماری امید اللہ کے بعد اب ان ہی لوگوں سے ہے، جو طاقتور لوگ ہیں وہ نہ کمیشن کی بات مانیں گے نہ کسی اور کی، وہ اپنی من مانیاں کرتے رہیں گے۔ 2014ءمیں جن دو افراد کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں ان کے بھی ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ کو خراب کردیا گیا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.