سانحہ بارکھان کے خلاف بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے ریڈ زون میں مری قبیلے کے افراد کا میتوں کے ہمراہ دھرنا اور احتجاج دوسرے روز بھی جاری ہے۔ دھرنے کے شرکا نے واقعہ کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کی گرفتاری کا مطالبہ کردیا ہے۔
بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں سے مری قبیلے کے افراد کی دھرنے میں شرکت کیلئے کوئٹہ ریڈ زون آمد جاری ہے۔
کوئٹہ کے ریڈ زون میں 21 فروری بروز منگل سے دھرنے دیئے شرکاء نے مقتولہ کے قتل کی تحقیقات اور پانچ بچوں کی بازیابی کیلئے ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی بنانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ واقعے کے خلاف بلوچستان بھر میں عدالتی امور کا بائیکاٹ آج بھی جاری ہے۔
اپنے احتجاج میں لواحقین کا کہنا ہے کہ موجودہ جے آئی ٹی کو اس لیے مسترد کیا ہے کہ اس میں ہمیں دھرنے اور پوسٹ مارٹم نہ کروانے کا کہنے والا ڈی سی بارکھان بھی شامل ہے۔
آل پاکستان مری اتحاد کے صدر جہانگیر مری اس کی تفصیل بتاتے ہوئے جہانگیر مری نے کہا کہ متاثرہ خاندان کا سربراہ اسماعیل، صوبائی وزیر کے گھر ملازم تھا، اس دوران ایک صحافی کا قتل ہوا تھا، جس کے بعد خود بچنے کیلئے صوبائی وزیر نے صحافی کے قتل کا الزام اس کے سر پر لگا دیا۔ سرکاری وکلا نے کسی نہ کسی طور اس کی جان چھڑائی اور ضمانت کرائی مگر وہ نجی جیل میں قید رہا۔ بعد ازاں کسی طرح متاثرہ شخص جب جیل سے فرار ہوا اور اپنے بیان سے مکر گیا تو یہ واقعہ بھی میڈیا میں سامنے آگیا۔
اس دوران متاثرہ شخص اسماعیل جب عبدالرحمان کے ہاتھوں سے نکل کر روپوش ہوگیا تو صوبائی وزیر نے اس کے اہل خانہ کو پکڑ کر اپنی نجی جیل میں ڈال دیا۔ اسی دوران باپ بیٹے کا جھگڑا ہوا تو بیٹے نے جیل میں موجود خاتون اور اس کے بچوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ ویڈیو سامنے آئی تو ہم سمجھ گئے کہ اب یہ لوگ ماں اور دونوں بچوں کو مار دیں گے۔
جس کے بعد مری قبیلے کی جانب سے اتوار 19 فروری کو احتجاج شروع کیا گیا۔ جس کے بعد یہ لوگ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے، انہوں نے اُن تینوں افراد کو ڈر کر مار دیا اور بعد پولیس کے حوالے کیا کہ ان کی لاشیں مسخ کردو اور شکلیں بیگاڑ دو۔
اس دوران جب ان کو تدفین اور کنویں میں ڈال رہے تھے تو ایک شخص نے چپکے سے ان کی ویڈیو بنا لی، اس شخص نے وہ ویڈیو مجھے بھیجی اور میں نے یہ معاملہ ڈی ایس پی ، ایس ایس پی ڈی سی کو بتایا اور یہ معاملہ کھل گیا۔
تاہم صوبائی وزیر مواصلات اور کھیتران قبیلے کے سربراہ سردار عبدالرحمان کھیتران نے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے آبائی گھر سے تقریباً دو کلو میٹر دو ر ایک کنویں سے یہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں اور انہیں معلوم نہیں کہ یہ لاشیں کس کی ہیں۔
ان کے بقول، “میں اس وقت کوئٹہ میں اپنے گھر پر موجود ہوں اور میری کوئی نجی جیل نہیں ہے۔ حکومت اور تمام اداروں کو پیشکش کرتا ہوں کہ بارکھان، کوئٹہ اور لاہور میں موجود میرے گھروں کی تلاشی لے لیں۔”
سردار عبدالرحمان کھیتران نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ لوگ مری اور ان کے قبیلے کو دست و گریبان کرانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ماضی میں بھی اس طرح کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔”
البتہ بارکھان واقعے کا مقدمہ اب تک درج نہیں ہو سکا ہے جب کہ مری قبیلے نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خاتون اور ان کے دو بیٹوں کے قتل کا مقدمہ صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کے خلاف درج کیا جائے اور ان کی قید میں موجود دیگر بچوں کو فوری بازیاب کرایا جائے۔
انسانی حقوق کمیشن بلوچستان چیپٹر کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ بارکھان واقعے کو انسانیت سوز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانونی طور پر یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے مگر اس واقعے میں ریاست مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خاتون کی سوشل میڈیا پر پہلے ویڈیو وائرل ہوئی جس میں خاتون نے حکومت سے مدد کی اپیل کی لیکن ریاست نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور اب اس کی لاش کوئٹہ کی سڑک پر پڑی ہے-