چندروزقبل بلوچستان افیئرزنے اس اہم خبرکوبریک کیا تھا کہ معروف بلوچ تاریخ دان،ادیب اوربلوچ قوم پرست رہنما جان محمد دشتی اوران کے رفقا نے بلوچستان نیشنل پارٹی کی مرکزی قیادت سے اپنے سیاسی اختلافات اورتحفظات کا اظہارکیا تھا اورانہیں دورنہ کرنے کی صورت میں بی این پی سے اپنی راہیں جد اکرنے کاعندیہ دیاتھا۔ آئیں اب اس پورے پس منظرکوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جان محمد دشتی کی بلوچستان نیشنل پارٹی سے علیحدگی مختلف سیاسی اورادبی حلقوں میں موضوع بحث رہاہے۔ باخبرذرائع کے مطابق ان کے اوران کے سیاسی اورادبی رفقاکاپارٹی پالیسیوں سے شدیداختلافات ہیں۔
پارٹی کی مرکزی حکومت کی غیرمشروط شمولیت اوربلوچستان حکومت کی برملاحمایت کے علاوہ بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن کے تناظرمیں اختلافات کھل کرسامنے آگئے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت کی طرف سےایک پختون کی گورنرنامزدگی پارٹی دستورکے بنیادی اساس اوراصولوں کے خلاف ہے۔ جبکہ اس تقرری کی حمایت کامقصد پارٹی بلوچستان کی دوقومی صوبہ کی حیثیت تسلیم کرتی ہے۔ جبکہ بلوچ قیادت شروع سے یہ موقف رکھتی ہے کہ پختون علاقے جوبلوچستان میں شامل کئے گئے ہیں وہ ان کے مرضی اورمنشا کے خلاف ہے۔ یہ علاقے بلوچستان سے الگ کئے جائیں۔
باخبرذرائع کے مطابق جان محمد دشتی اوران کے سیاسی رفقا اس بات پرناخوش ہیں کہ پارٹی نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کے دوران ہزاروں بلوچ خاندانوں کوجواپنے اپنے گھروں اورعلاقوں سے بے دخل کئےگئے ان کی اپنے علاقوں میں دوبارہ آبادکاری کے لئے حکومت پاکستان اورحکومت بلوچستان کوکوئی بھی تجویزنہیں دی اورنہ ان کی آبادکاری کے لئے دباؤ ڈالا اسی تناظرمیں جاری آپریشن کے نتیجے میں پورے بلوچستان میں جنگ جاری ہےلیکن مرکزی حکومت کاحصہ ہونے کے ناطے عام بلوچ یہ سوچنے پرمجبورہیں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی دوسرے سرکاری پارٹیوں یا گروہوں کی طرح اس آپریشن کی حمایتی ہے۔
جان محمد دشتی اوران کے ادبی رفقا اس بات پر رنجیدہ اورناخوش ہیں کہ بلوچی زبان وادب کی ترقی وترویج کے سلسلے میں پارٹی پالیسی کوپش پُشت ڈالا گیا ہے اورپارٹی کی طرف سے حکومتوں میں حصہ داری کے باوجود کسی بھی بلوچی ادبی تنظیم کی مالی معاونت نہیں کی گئی جوانتہائی ناقابل قبول پالیسی ہے۔
جان محمد دشتی پارلیمانی سیاست میں بھرپورحصہ لینے کا قائل ہے کیونکہ ان کی نظرمیں قوم پرست پارٹیوں کا سیاسی میدان خالی چھوڑنے کامقصد بلوچستان اسمبلی میں ایسے لوگوں کی راہ ہموارکرنا ہے جوبلوچستان کے سیاسی اورمعاشی مفادات کے خلاف کام کرسکتے ہیں اوراس سے بلوچستان کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن وفاقی وصوبائی حکومتوں میں شمولیت کے بعد پارٹی ارکان اور وزیروں کا کرپشن اورمالی بدعنوانی پارٹی ورکروں اورکارندوں کے لئے قابل قبول نہیں ۔
ان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے طول وعرض میں بلوچ دانشوراورسیاسی ورکرایک گومگوکی کیفیت میں ہیں اورپارٹی لیڈروں کی کرپشن پروہ انتہائی رنجیدہ اورپریشان ہیں۔
پارٹی کے سنجیدہ کارکن اس بات پرناراض ہیں کہ پارٹی قیادت ایسے افراداورسرکاری حمایت یافتہ لوگوں کوپارٹی میں لاناچاہتی ہے جن کاکردارمشکوک رہاہے اورجوبلوچستان کے قومی مفادات کے خلاف دشمن قوتوں کے آلہ کاررہے ہیں۔
بلوچستان میں پچھلے دو دہائیوں سے بلوچ نوجوان ایک سیاسی مزاحمتی جِدوجَہد میں مصروف ہیں جس میں بیشمارجانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
جان محمددشتی اوران کے رفقا اس بات پرمُصرہیں کہ پارٹی کی طرف سے اس تنازعہ پردوٹوک موقف موجودنہیں اوراخباری بیانات کے علاوہ اس سیاسی کشمکش میں بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچوں کی حمایت سے قاصرہے۔ اسی طرح مسنگ پرسنزکے معاملے میں تمام زوراخباری بیانات پرہیں جبکہ عملاً اس سلسلے میں کوئی موزوں پالیسی موجود نہیں ۔
اس سیاسی تناظرمیں جان محمددشتی اوران کے رفقا کا برملا اظہارِتشویش اورپارٹی سے علیحدگی کے دُوررَس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں اورسیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں ضلع کیچ اورضلع گوادرمیں بلوچستان نیشنل پارٹی کی سیاسی حیثیت پرکاری ضرب لگ سکتی ہے۔
اگرچہ ابھی تک کوئی باقائدہ اعلان نہیں ہوا لیکن باخبرذرائع کے مطابق جان محمددشتی اپنے حامی سیاسی راہنماؤں اورورکروں سے ملاقات کررہے ہیں اورجلدی یا بہ دیرصورت حال واضح ہوسکتی ہے۔
ہم نے خود جان محمددشتی سے ان کے اختلافات کی سبب جاننے کی کوشش کی ہے لیکن ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ ابھی تک دوستوں اوربہی خواہوں سے گفت وشنی دکررہے ہیں اوراس مرحلے میں کسی قسم کا باقائدہ رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں۔
جناب جان محمد دشتی اوران کے سیاسی رفقا کی بی این پی سے علیحدگی کے بعد بی این پی اوربلوچ سیاست پرکیااثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
سب سے اہم اثرسیاسی کارکنان کی بی این پی قیادت سے دلشکنی اورپارلیمانی سیاست سے بدظنی کی شکل میں برآمدہوسکتاہے۔اس سے بی این پی کے سیاسی مخالفین اوراسٹیبلشمنٹ نوازپارٹیاں مستفیدہوں گی۔ پارلیمانی سیاست سے بدظن بلوچ جن کی جناب جان محمد دشتی کی وجہ سے بی این پی سے ہمدردی تھی وہ فوری طورپرنفرت میں بدل جائے گی۔بلوچ ادبی اورعلمی حلقوں میں بی این پی کوجومقام جان محمد دشتی کی وجہ سے حاصل رہا ہے وہ اس سے چھن جائےگا۔
علاوہ ازیں دیگرسیاسی جماعتوں کے سیاسی رہنماؤں کے مطابق بلوچستان کی سیاست میں عموماً اورمکران وکیچ کی سیاست میں خصوصاً انارکی اورانتشارجنم لے گی۔ سیاسی نیوکلیئس کمزورہوجائے گی اورپارلیمانی سیاست سے بلوچ نوجوان جوپہلے ہی سے مایوس تھے وہ متنفرہوجائیں گے۔
شاید جان محمد دشتی اوران کے سیاسی رفقاعید کے بعد اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں اوراس میں بلوچ سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے بہترفیصلے کئےجائیں۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.