جون 26 2022 کو ایچ آر سی پی ریجنل آفس تربت مکران کے زیر اہتمام تربت میں تشدد کے شکار افراد سے اظہار یکجہتی کے عالمی دن کے موقعے پر پہلے ایک اجلاس منعقد ہوا اور پھر ایک مظاہرہ بھی کیا گیا اجلاس کے شرکاء نے تشدد کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس کی ہر شکل کی مذمت کی اور اسے فوری طور پر ختم کرنے کا پرزور مطالبہ کیا۔
اس سلسلے میں معروف وکیل عبدالمجید دشتی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ تشدد کو روکیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ وہ تشدد کرنے میں خود ملوث ہیں۔
ظریف زدگ نے کہا کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں جب کسی پر تشدد ہوتا ہے تو وہ شکایت اور انصاف کے لیے ریاستی اداروں کے پاس جاتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ریاستی ادارے تشدد کرنے کے سلسلے میں خود پیش پیش ہیں اس لئے ہم لوگ شکایت اور انصاف کے لئے کس کے پاس جائیں؟
صدام ناز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہر قسم کے تشدد سے محفوظ رہنا ملک کے ہر شہری کا حق ہے اور یہ حق ملنا بھی چاہیے لیکن عملا ایسا نہیں ہے اور اس سلسلے میں بااختیار لوگوں کی طرف سے باتیں تو بہت کی جاتی ہیں مگر عمل کرنا کوئی نہیں چاہتا اور صحافیوں کو چاہیے کہ صحیح حالات کو نہایت غیر جانب داری اور بے باکی سے اجاگر کریں اور لوگوں کو انصاف دلانے کی کوشش جاری رکھیں ۔
منور علی رٹّہ نے کہا کہ تشدد سے باز رہنے کا سلسلہ ہر شخص کو اپنے نفس اور خاندان سے شروع کرنا چاہیے اور اس سے باز رہنے کے لیے سچی تعلیم اور شعور و آگاہی لانے کی ضرورت ہے چناچہ انسانی حقوق کے اداروں سماجی اداروں اور سیاسی اداروں کا فرض ہے کہ وہ ملک بھر میں سچی تعلیم اور شعور و آگاہی پھیلائیں تاکہ عوام کے بنیادی انسانی حقوق محفوظ رہیں-
اجلاس کے آخر میں غنی پرواز نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ لوگوں کو نشانہ بنانے سے متعلق دو بنیادی اصطلاحات مشہور ہیں جن میں تشدد اور اذیت شامل ہیں جنہیں بعض علماء اور ماہرین مختلف سمجھتے ہیں اور بعض انہیں ایک یا ملتی جلتی چیزیں سمجھتے ہیں بعض علماء اور ماہرین کے مطابق تشدد وہ عمل ہے جس میں کسی مادی چیز یا آلے کے ذریعے کسی شخص کے جسم پر ضرب لگایا جائے جبکہ اذیت وہ عمل ہے جس میں کسی مادی چیز آلہ یا زبان کے ذریعے کسی شخص کے ذہن پر ضرب لگایا جائے۔ تاہم انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق ان دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اس لئے اس کی تعریف کے مطابق تشدد وہ عمل ہے کہ جس میں کسی ٹوس چیز آلہ اور زبان وغیرہ کے ذریعے کسی شخص کے جسم یا ذہن پر ضرب لگایا جائے۔
تشدد کرنے کے 3 مقاصد ہوتے ہیں
1 متعلقہ شخص سے اعتراف جرم کروانا
2بعض دوسرے لوگوں یا اداروں کے بارے میں معلومات اگلوانا
3 متعلقہ شخص کو سزا دینا
تشدد کی کئی بنیادی قسمیں ہیں جن میں جسمانی تشدد، جنسی تشدد، گھریلوں تشدد، اسکول تشدد، پولیس تشدد، CTD تشدد، FCتشدد، کوسٹل گارڑ تشدد، رینجرز تشدد، ملٹری تشدد،معاشرتی تشدد،اور کئی دوسری قسمیں شامل ہیں جن کے بارے میں ملک بھر میں اتنی مثالیں موجود ہیں جن پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں تشدد کے بے شمار نقصانات ہیں جن میں جسمانی طور پر معذور ہونا، جنسی طور پر معذور ہونا، ذہنی طور پر معذور ہونا، نفسیاتی طور پر مریض ہونا،صلاحیتوں سے محروم ہونا، روزگار تعلیم اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہونا اور کئی دیگر نقصانات شامل ہیں۔
1987 میں ڈنمارک کی تجویز پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک کنونشن منعقد کیا جس نے تشدد کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ فیصلہ کرلیا کہ آئندہ ہر سال 26 جون کو تشدد کے شکار افراد سے اظہار یکجہتی کا عالمی دن منایا جائے گا جس کے دوران تشدد کے نققصانات اجگر کر کے اسکی روک تھام کی کوششیں کی جائیں گی ا سطرح 26 جون 1998 سے تشدد کے شکار افراد سے اظہار یکجہتی کا عالمی دن منانے کا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔
تشدد ایک لعنت ہے جس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں اور اقوام متحدہ ایچ آر سی پی,انسانی حقوق کے تمام دوسرے ادارے اوردنیا بھر کے تمام باشعور لوگ اس کے خلاف ہیں،اور اس کے خاتمے کے حق میں ہیں لہذا مکران اور بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں تشدد کی تمام قسموں کے تمام ذمہداران کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنے اپنے طور پر تشدد کی تمام قسموں سے یکسر دستبردار ہونا چاہیے تاکہ ملک کی جملہ افرادی قوتیں مل کر اپنی صلاحیتوں کے مطابق تمام تر شعبہ ہاہے زندگی کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے سکیں اجلاس کے آخر میں پانچ قراردادیں منظور کی گئیں جو یہ ہیں۔
قراردادیں
1: شدت ختم کیا جائے
تجربے میں آیا ہے کہ تشدد ایک بہت بری چیز ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں طرح طرح کے جسمانی ذہنی نفسیاتی معاشرتی اور دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ ایچ آر سی پی,انسانی حقوق کے تمام دوسرے ادارے اور دنیا کے تمام باشعور لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے خاتمے کے حق میں ہیں لہٰذا تشدد کے شکار افراد سے اظہار یکجہتی کے عالمی دن کے موقع پر تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور افراد اور معاشرے کے مختلف لوگوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ تشدد کی ہر شکل کی مخالفت کرے اور اس کے خاتمے کے لیے کوششیں کریں۔
2: جبری طور پر اغوا اور گمشدگی کے ذریعے تشدد بند کیا جائے
بلوچستان میں 2001 سے ماورائے آئین و عدالت لوگوں کو جبری طور پر اغواء کرکے لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو تاحال جاری ہے اس دوران ہزاروں لوگوں کو اپنی طہویل میں لاپتہ کر کے اور خفیہ ٹارچر سیلوں میں بند کرکے تشدداور اذیت کا نشانہ بنایا جاتا رہا جن میں بہت سارے لوگ اپنے جانوں سے بھی محروم ہو گئے اور جو بچ گئے اور بازیاب اور رہا ہو کر اپنے گھروں میں واپس ہوئے وہ بھی بہت سے جسمانی ذہنی نفسیاتی معاشرتی اور دیگر مسائل اور پیچیدگیوں کے شکار ہو کر رہ گئے جن کی بنا پر اپنی بہت ساری صلاحیتوں اور مواقع سے بھی محروم ہو کر رہ گئے لہٰذا موجودہ پروگرام کے ذریعے تمام متعلقہ سرکاری اداروں سے پر زور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ماورائے آئین و عدالت لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے اور تشدد کا شکار بنا کر ان کی جانیں لینے یا انہیں مختلف جسمانی ذہنی نفسیاتی اور معاشرتی مسائل میں مبتلا کرنے کا طویل سلسلہ بند کریں اور ساتھ ہی ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ تمام لاپتہ افراد کو فوری طور پر بازیاب اور رہا کیا جائے جن میں مرد خوتین بچے اور بوڑھے سب شامل ہیں۔
3: تشدد کے ذمہ داروں کو سزائیں دی جائیں
اجلاس نے ایک اور قرارداد کے زریعے یہ مطالبہ بھی کہا کہ تشدد کو ملک بھر میں جرم قرار دیا جائے اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ کی جانب سے قانون تشکیل دیا جائے اور اس قانون کی بنیاد پر تشدد کے مرتکب لوگوں کو ان کے جرائم کے مطابق سزائیں دی جائیں۔
4: پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں طلباء اور طالبات پر تشدد بند کیا جائے
دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ اور طالبات کو مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے بلاوجہ تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے یہ اجلاس سرکاری اداروں کے اس عمل کو غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار دے کر اس کی شدید مذمت کرتا ہے اور پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ اور طالبات پر تشدد کا یہ سلسلہ بند کیا جائے
5: پنجگور میں امن امان قائم کیا جائے
جائزے میں یہ بھی آیا ہے کہ پنجگور میں مختلف سرکاری ادارے اپنے خود غرضانہ مفادات کی خاطر ضلع بھر میں مختلف گروہوں اور لوگوں کو آپس میں لڑا کر بدامی پھلا رہے ہیں لہذا یہ اجلاس مزکورہ سرکاری اداروں کے اس عمل کو بھی غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار دیکھ کر اس کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ سلسلہ بند کر کے ضلع بھر میں امن قائم کرنے کا پرزور مطالبہ کرتا ہے
اجلاس کے بعد تشدد سے متعلق مختلف نعروں سے مزین پلےکارڑوں کے ساتھ ایک مظاہرہ بھی کیا گیا ۔
رپورٹ :غنی پرواز ایچ آر سی پی ریجنل آفس تربت مکران بلوچستان
کمپوزنگ :وقار قیوم اور جمال پیرمحمد ایچ آر سی پی ریجنل آفس تربت مکران بلوچستان
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.