بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابق وائس چیئرمین ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کو14سال مکمل ہونے پر8جون کو کوئٹہ میں سیمینار اور کراچی پریس کلب کے باہر ایک روزہ احتجاجی کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔
لاپتہ بلوچ طالب علم رہنماءذاکر مجید کی رہائی کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں سمیت کثیر تعداد میں نوجوانوں و لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے شرکت کی۔
سیمینار میں لاپتہ ذاکر مجید کی والدہ نے بھی شرکت کی اور شرکا سے خطاب کیا۔ مقررین نے کہا ہےکہ ذاکر مجید ایک طالب علم رہنماءاور بلوچ نوجوانوں کے آئیڈیل لیڈرہیں۔
وہ بطور ایک سیاسی ورکر بلوچستان کے کونے کونے میں جاکر بلوچ نوجوانوں کو آگاہی دیتے اور ان کے حقوق اور ریاستی ناانصافیوں کے حوالے سے شعور پھیلاتے تھے لیکن بدقسمتی سے انہیں گزشتہ 14 سال سے زندانوں کی نذر کر دیا گیا ہے اور غیر انسانی اذیتیں دی جارہی ہیں۔
ذاکرمجید کے حوالے سے اب تک ریاستی ادارے خاموش ہیں۔ ذاکر مجیدکی والدہ اور بہن بانک فرزانہ گزشتہ 14 سال سے ان کی بازیابی کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں لیکن ریاستی ادارے ذاکر مجیدکے حوالے سے کسی بھی طرح کی معلومات فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔مقررین نے کہاہے کہ جبری گمشدگی جو کہ ایک غیر انسانی عمل ہے۔
عالمی و ملکی قانون میں کسی بھی شخص کو جبری طور پر لاپتہ کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔
لیکن شاید بلوچستان دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں قانون کے محافظ ہی قانون کو روند ڈالتے ہیں۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے پچھلے بیس سال میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایاگیاہے اوریہ سلسلہ اب تک جاری ہے ، سینکڑوں مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں، ہزاروں نوجواں کئی سال سے زندانوں میں اذیتوں کا سامنا کررہے ہیں۔
جبری گمشدگیوں کا یہ ہولناک سلسلہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے اور آج اس میں شدت دکھائی دیتی ہے۔
بلوچ طالبعلموں اور معصوم بلوچ نوجوانوں کو بغیر کسی جرم اغوا کرکے جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے۔
جبری گمشدگیوں کا یہ عمل صرف جبری طور پر لاپتہ افراد تک محدودنہیں ہے بلکہ اس عمل سے پورا ایک خاندان اجتماعی اذیتوں کا نشانہ بنتا ہے۔
بلوچستان کے ہزاروں خاندان اس وقت اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے تڑپ رہے ہیں۔
سینکڑوں مائیں سالہال سال سے اپنے بیٹوں کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر دربدر آنسو بہا رہے ہیں۔
سیکڑوں گھرانوں کے واحد کفیل لاپتہ ہیں اور بلوچ خاندان شدید ذہنی و مالی مشکلات کے شکار ہیں۔
ریاستی اداروں کی جانب سے جبری گمشدگیوں کو بطور سیاسی ڈھال استعمال کیا جارہا ہے۔
اس عمل سے پورے سماج میں ایک خوف کا سماں ہے۔
بولتی آوازوں کو اس غیر انسانی عمل کے ذریعے خاموش کیا جاتا ہے۔ اور پھر لاپتہ افراد کے خاندان کو کسی بھی طرح کی قانونی حق بھی نہیں دیا جاتا ہے۔
مقررین نے کہاہے کہ ذاکر مجید سمیت سینکڑوں بلوچ طالبعلم پچھلے دس سال سے زائد جبری طور پر لاپتہ ہیں اور اذیتوں کا سامنا کررہے ہیں۔
ذاکر مجید بلوچستان میں بلوچ طالبعلم راہنما ہونے کے ساتھ بلوچ قوم کیلئے ایک موثر آواز بھی تھے جسے خاموش کرنے کیلئے ریاستی ادارے ذاکر مجید کوپچھلے 14 سال سے جبری طور پر لاپتہ کرکے انہیں اذیتیں دے رہے ہیں۔
ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کو 14 سال پورے ہوگئے ہیں۔ ذاکر مجید کی والدہ 14 سال سے اپنے لخت جگر کی بازیابی کیلئے پریشان ہے۔
اس سیمینار میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور جبری گمشدگیوں کے اس غیر انسانی و غیر قانونی عمل کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ سیمینار سے ایڈووکیٹ عمران بلوچ، لاپتہ ذاکر مجید کی والدہ، ایڈوکیٹ شاہ زیب، پروفیسر لالا منیر، لاپتہ آصف کی ہمشیرہ سائرہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے خطاب کیا اور ذاکر مجید سمیت تمام لاپتہ بلوچ اسیران کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔علاوہ ازیں بلوچ طالب علم رہنماء ذاکر مجید بلوچ کی جبری گمشدگی کو چودہ سال مکمل ہونے پر 8 جون کو کراچی پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے چھ گھنٹے کی علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کا انعقاد کیا گیا جسکے بعد پرامن مارچ کے بعد پریس کلب کے آگے مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرہ سے سیما بلوچ، سعیدہ بلوچ، گمشدہ راشد حسین کی والدہ،چندروزقبل گمشدہ ہونے والے بلوچ لکھاری سکی ساوڈ کے لواحقین، سمی دین محمد بلوچ سمیت سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے خطاب کرتے ہوئے ذاکر مجید سمیت تمام لاپتہ کئے گئے افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.