کوئٹہ :
بلوچ طلباءاور بلوچ نوجوانوں کی ماورائے آئین لاپتہ ہونے کا سلسلہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ڈیتھ اسکواڈ کا وفاقی کابینہ میں موجودگی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے سینئر وائس چیئرمین بابل ملک بلوچ، ایم جے بلوچ نے اپنے بیان میں کہاہے کہ درجنوں افراد کو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ماورائے آئین لاپتہ کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب الیکٹرانک میڈیا سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی خاموشی اس مسئلے کو بڑی الجھن کا شکار بنا رہی ہے، تعلیمی اداروں سمیت ہاسٹلوں، بازاروں سمت بلوچ طلباءکہیں محفوظ نہیں، جتنی بڑی سطح پر غیر قانونی اغواءکیے جارہے ہیں، دوسری طرف عدلیہ کی خاموشی عوام کو مزید مایوسی کی جانب دھکیل رہی ہے۔
موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ بلوچ طلباءیکجا ہو کر اس غیر قانونی عمل کیخلاف مزاحمتی تحریک چلائیں۔ بیان میں مزید کہا کہ وفاقی سیاسی جماعتیں 18ویں ترمیم کی تعریف کرتے نہیں تھکتیں، وہیں کچھ بدمعاش آئین شکن لوگ آئین میں موجود بنیادی انسانی حقوق کو ماننے سے انکاری ہیں، ایسے کیسی بھی غیر قانونی و آئینی عمل کو روکنے کیخلاف قومی مزاحمت کی ضرورت ہے، ہم تمام سیاسی جماعتوں و طلباءتنظیموں کو اس ریاستی سرپرستی میں اغواءکاریوں کو روکنے کے لیے اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کریں اور اپنے وجود اور قومی شناخت کو لاحق خطرات کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں۔
بی ایس او اس عمل کیخلاف ہونے والی تمام تحریکوں کا حصہ رہی ہے اور اپنے قومی فریضہ سمجھ کر ان غنڈوں اور بدمعاشوں سے نمٹنے کیلئے ہر تحریک کے حصہ رہنے کا اعادہ کرتی ہے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.