بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے مرکزی چیئرمین زبیر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کے بلوچستان میں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب کوئی نوجوان ماورائے آئین لاپتہ نا ہو اور ان تمام غیر قانونی و انسانیت سے عاری عمل پہ عدلیہ کی خاموشی حیرت انگیز ہے۔ جب زیارت میں جعلی مقابلے میں بلوچ نوجوانوں کو شہید کیا گیا اور جس کی تحقیات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنایا گیا اور اسے ایک ماہ کے اندر رپورٹ جمع کرنے کے لئے پابند کیا گیا لیکن کئی ماہ گزر گئے اب تک اس جوڈیشل کمیشن کا رپورٹ نہ آسکا نہ ہی اس کمیشن نے از خود کوئی کاروائی کی۔
انہوں نے کہاہے کے سیاسی عمل اور تخلیقی سوچ کو ختم کرنے کے لئے آئے روز ایسے خونی کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ بلوچستان میں جب بھی کوئی بڑا واقع ہوتا ہے تو ریاستی ادارے عقوبت خانوں سے کچھ معصوم اور نہتے لاپتہ بلوچوں کو نکال کر ان کے سروں پر گولیاں داغ کر مقابلے کا نام دیتے ہیں حالیہ دنوں بھی خاران میں 4 نہتے لاپتہ بلوچوں کو نکال کر شہید کیا گیا جس میں بی ایس او پجار کے اہم رہنماو وندرزون کے صدر تابش وسیم بلوچ کو شہید کیا گیا جس کے حوالے سے تنظیم نے انسانی حقوق کی تنظیموں ، لاپتہ افراد کے کمیشن و وفاقی وزیر داخلہ کو بھی شکایت درج کروائی لیکن جہاں وفاقی وزیر داخلہ نے 3 ماہ میں لاپتہ افراد کی رہائی کا وعدہ کیا وہیں تابش اور سلال سمیت دیگر نہتے لاپتہ افراد کو قتل کیا گیا اور مقابلے کا نام دیا گیا۔
انہوں نے کہا کے ہم جموری و پرامن لوگ ہیں لیکن ہمارے قتل پہ عدلیہ سمیت تمام آئینی ادارے کیوں خاموش ہیں ہمارا سوال پارلمنٹ میں بیٹھے بلوچ اور عدلیہ کے معزز ججوں سے ہے کہ ریاستی ادارے تحقیقات سے کیونکر مبرا ہیں ہم تابش کے قتل کو نہ صرف ریاستی قتل بلکہ ہم اس قتل کو عدالتی قتل بھی سمجھتے ہیں عدلیہ کو بلوچستان کو مزید کُشت وخون سے روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.