بلوچی لبزانکی دیوان کے زیر اہتمام پریس کلب کوئٹہ میں بلوچی زبان، ادب، ثقافت اور فوکلور کے بارے میں سیمینار منعقد ہوا۔
جس کی صدارت منیر احمد بادینی نے کی اور مہمان خاص واجہ علی بخش دشتیاری تھے جبکہ پروگرام کے اعزازی مہمان بلو چی میوزک پروموٹرز کے صدر اسحاق رحیم تھے۔
بلوچی زبان و ادب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بلوچی زبان کے ناول نگار منیر احمد بادینی نے کہا کہ بلوچی زبان ایک بہت پرانی زبان ہے۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس کی رسم الخط کا مسئلہ ہے۔
بلوچی زبان کے دانشور، ادیب اور اداروں کا فرض ہے کہ وہ بلوچی زبان کیلئے جلد از ایک اسٹینڈرڈ رسم الخط تشکیل دیں تاکہ تمام ادیب اس کے پابند ہو۔
نامور دانشور علی بخش دشتیاری نے کہا کہ بلوچی زبان کے ساتھ بلوچی کلاسیکل شاعری اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے جس کے فروغ کیلئے جدید ٹیکنالوجی پر کام کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں بلوچی زبان کے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یار جان بادینی نے کہا کہ کوئی قوم تاریخ میں ختم نہیں ہوتی جب کسی قوم نے اپنی زبان ادب اور ثقافت کو چھوڑ دیا۔تووہ تاریخ میں غائب ہو جاتا ہے کسی بھی قوم کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان ثقافت اور ادب کو زندہ رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
براہوئی اور اردو زبان کے نامور ادیب نور خان محمد حسنی نے کہا کہ زبان اور ادب کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ زبان اور ادب کو جدید ٹیکنالوجی کیلئے پروموٹ کریں۔ویب سائٹ بنانا چاہیے تاکہ پورا دنیا اس سے استعفادہ کر سکیں۔
سیمینار سے اے آر داد، اسحا ق رحیم، گلزار گچکی،نادر قدوس، رحیم مہر، عبداللہ بلوچ و دیگر نے خطاب کیا اور کہا سندھ حکومت کی طرح بلوچستان کے سرونز،دمبورہ،نل، چنگ اور بینجو کے آرٹسٹوں کیلئے 17 گریڈ کے اسامیاں مشتہر کئے جائے تاکہ وہ مالی مشکلات سے فارغ ہو کراپنے فن اور آرٹ کو بہتر طور پر وقت دے سکیں۔
سیمینار کے آخر میں بلوچی میوزک پروموٹرز سوسائٹی کے مہمانوں کے اعزاز میں عشایہ دیا گیا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.