:کوئٹہ
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کی سرزمین اگر سردارعطاء اللہ مینگل اور خیربخش مری جیسی لوگوں کو پیدا نہیں کرسکی توپھر ہمیں فاتحہ خوانی پڑھنی چاہیے گاندھی کو ماتما گاندی بنانے والے احساس نے سردارعطاء اللہ کو سردارعطاء اللہ مینگل بنایا ،قومی احساس ختم لوگ مراعات،رتبے اور وزارتوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
،بلوچستان کی مٹی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی وجہ سے پارلیمنٹ جاناپڑتاہے جمہوری جدوجہد کے تسلسل کے ذریعے قومی حقوق حاصل کئے جاسکتے ہیں ،ان خیالات کا اظہار بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام سردار عطا اللہ مینگل کی یاد میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ بلوچستان میں خونخوار چھیلے یہاں کے سڑکوں پر آئے ہمارے اور ہمارے بچوں کو گھروں سے جپٹ کر لے کر جاتے ہیں ہم شتر مرغ کی طرح اپنا سر مٹی میں ڈبو کر اپنے آپ کو یہ احساس دلانے کیلئے کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں دیکھا ہے یہ وہ احساس ہے کہ گاندھی کو ماتما گاندھی بنا یا یہ وہ احساس ہے کہ سردار اعطا اللہ کو سردار عطا اللہ مینگل بنا یا اگر آپ لوگوں میں یہ احساس موجود ہے تو میں مایوس نہیں ہو ں گا کہ یہاں پر کئی اور سردار عطا اللہ مینگل اور کئی اور خیر بخش مری بھی بنے ہوں گے۔
لیکن اگر یہ سرزمین بانجھ ہوگئی ہے تو افسوس کے ساتھ بانجھ ہی کے لیے فاتحہ ہی پڑھ سکوں گا آج ہر روز ہر گاوں میں ہماری تذلیل کی جارہی ہے سڑکوں پر ہمارے بزرگوں کی پگڑیاںاچالی جارہی ہے انہی شاہراہوں سڑکوں پر ہماری ماں اور بہنوں کی دوپٹے اٹھائے جارہے ہیں ہم میں احساس ختم ہو چکا ہے اس وقت سردار عطا اللہ مینگل وزارت اعلی کیلئے تیار نہیں تھے۔
آج ہر سیاسی پارٹی کے قائدین سے لیکر کارکنوں تک ریل پیل ہے کہ میں کیسے ایم پی اے بنوہماری عام عوام اس جستجو کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے کہ ہم کہی فاتحہ پر بھی جاتے ہیں۔
لوگ درخواستیںدیتے ہیں کہ مجھے نوکری دیا جائے ہم میں قومی احساس و قومی جدوجہد بلکل ختم ہوچکی ہے۔
ہم مراعات اور رتبے اور وزارتوں نوکریوں کے دوڑ میں لگے ہوئے ہیں جب تک ہم نے ان تمام مراعتوں سے چٹکارا حاصل نہیں کیا ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ہم پارلیمنٹ میں نہ جائے لیکن پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے اگر ہمیں بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کا احساس نہیں ہوتا تو ہمیں پارلیمنٹ میں بھی جانے کا کوئی حق نہیں ہے بلوچستان کی مٹی کی کوک کی خاطر اپنے آپ میں یہ سوچ لانی ہوگی کہ بلوچستان کی احساس محرومی کو تقویت اور اہمیت دینی ہوگی تاکہ منزل کی طرف گامزن ہو اگر ہماری منزل بلوچستان اور بلوچستان میں بسنے والے تمام اقوام چاہے بلوچ ،پشتون،ہزارہ،سیٹلر کو بلوچستانی کہتا ہوں ان کے حقوق کی عالم بلند کرکے میدان میں ہم نہیں اتریں گے۔
اس وقت تک بلوچستان کے جائز حقوق لینے میں ہم کامیاب نہیں ہوں گے اس دنیا میں کروڑوں عطا اللہ منگل پیداہوئے ہیں اس صوبے بلوچستان کے باہر اگر لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں سردار عطا اللہ مینگل اس صوبہ بلوچستان میں کئی سردار ہوں گے لیکن سردار عطا اللہ مینگل کیسے بنے حقیقتا ہمیں بچپن سے ہی باپ کی شفقت سے محروم رکھا گیا میری عمر چار ماہ کی ہوگی جب ان کو پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا یہ وہ عمر ہوتی ہے کہ بچہ بولنا سیکھتا ہے۔
ایک سال کی قید کے بعد ایوبی مارشل لا کے خلاف کنگری گراونڈتقریر کرنے کی جرم میں ایک سال قید کرلیا جب پہلی مرتبہ ہمیں کراچی جیل ان کی پیشی پر لے جایا گیا کیونکہ ہم نے دیکھا ہی نہیں تھا اور جیل کی سلاخوں میں عدالت جاتے ہوئے ایک خو ف سا محسوس ہورہا تھا اور آپ نے دو تصویریں دیکھی ہوگی وہ دو تصویریں کراچی جیل میں لی گئی تھی ان دو تصویروں میں نہیں ہو ایک میرے بڑے بھائی اور دوسری میری بہن تھی میں خوف کے مارے نہیں جاسکتا تھا کیونکہ میں نے اپنے والد کو دیکھا ہی نہیں تھا ۔
اور نہ ہی ان کی آواز سنی تھی سردار عطا اللہ مینگل کی رہائی کے دو ماہ بعد باپ اور بیٹے کوکراچی منگھو پیر سے گرفتار کرکے ٹرک کے ذریعے مچھ جیل لایا گیا اس وقت کوئی سپر ہائی وے بھی نہیں تھا آج بھی آپ کوئٹہ سے خضدار اچھی ایئر کنڈشنر گاڑی میں سفر کرے تو آپ کی قمر پر تکلیف ہوگی۔
ان عظیم لوگوں نے ایسی قربانیاں دی ہے بلوچستان کی مٹی کی خاطر پانچ سال کی سزا اور کاٹی رہائی کے بعد پھر بلوچستان کا دورہ شروع کردیا ہمیںکہاں سے شفقت ملتی ان دوروں کے بعد 1970کے الیکشن کا اعلان ہوا پھر الیکشن کمپین میں چلے گئے بلوچستان میں نا کوئی سڑک اور نہ ہی کوئی موبائل فون تھے اور انہوں نے چار مہینے میں پورے بلوچستان کا الیکشن کمپئن کا دورہ مکمل کرلیا ۔
جب سردار عطا اللہ مینگل9مہینے کیلئے وزیر اعلی بنے تو ہمیں انہوں نے کوئٹہ آنے سے سخت منع کیا تھا کہ کوئی بھی کوئٹہ نہیں آئے گا ابھی آپ دیکھے وزیر اعلی ہاوس میں خاندان کے جتنے افراد ہے ان کے دفتر باقاعدہ قائم ہیں جب سردار عطا اللہ مینگل وزیر اعلی بلوچستان تھے۔
تو میرے اور بھائی گورنمنٹ سکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے نہ کہ ایچ ایسن یا کوئی اعلی سکول میں تعلیم حاصل کرتے 9مہینے کی حکومت ختم ہونے کے بعد پھر سردار عطا اللہ مینگل کو جیلوں میں پابند سلاسل کردیا اس کے بعد سردار عطا اللہ مینگل نے جلا وطنی کی اور مجھے ملنا نصیب ہوا بلوچستان میں کئی ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے ماں باپ کی شفقت سے محروم ہوں گے آج بھی مسنگ پرسن جو کئی باپ اپنے بچوں سے محروم ہے ان کا ذمہ دار کون ہے ان سب کے بچپن کے دن واپس دلائے جاسکتے ہیں ۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.