بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری اطلاعات و ثقافت قاضی داد محمد ریحان اور ہیومین رائٹس سیکریٹری ڈاکٹرناظر نور نے مشترکہ پریس کانفرنس میں مئی 2022 میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ رپورٹ پیش کیا۔
اس رپورٹ کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ کے فدائی حملے کے بعد بلوچستان اور بلوچستان سے باہر پاکستان کے شہروں میں بلوچوں کی جبری گمشدگی اور انھیں شک و شبہ کی بنیاد پر گرفتار کرکے ان پر تشدد کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔مئی کے مہینے 61 افراد کو پاکستانی فورسز نے جبری لاپتہ کیا جن میں سے 22 کو تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا جبکہ 39 تاحال جبری لاپتہ ہیں۔پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے ضلع خاران سے 3 افراد ، شال سے 5 ، آوران سے 7 ، کیچ سے 7 ، خضدار سے 3 ۔ ھرنائی سے 1، لسبیلہ سے 6 ، گوادر سے 1 ، مستونگ سے 2 اور ضلع نوشکے سے 1 افراد کو گرفتار کرکے جبری لاپتہ کردیا۔ سندھ کے مرکزی شہر کراچی سے سب سے زیادہ 20 بلوچ پاکستانی فورسز نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیے۔جبکہ راولپنڈی پنجاب پاکستان سے بھی 1 طالب علم کو جبری لاپتہ کیا گیا۔
بی این ایم کے ہیومین رائٹس سیکریٹری ڈاکٹرناظر نور نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے ہیومین رائٹس ڈیپارٹمنٹ پانک کی مرتب کردہ ماہانہ رپورٹ میں مزید بتایا کہ بلوچستان میں گذشتہ مہینے کوھلو میں 2 ، پنجگور سے 1 ، لسبیلہ سے 1 اور سندھ میں حیدرآباد سے 1 بلوچ کی لاش ملی۔حیدرآباد میں ملنے والی لاش امام بخش ولد کالوخان سکنہ سبی کی تھی جو بلوچ قومی تحریک آزادی کے ہمدرد تھے۔انھیں پاکستانی فوج نے حراست کے بعد قتل کردیا تھا۔مئی کے مہینے میں بلوچ عوام کے خلاف پاکستانی فورسز نے 8 نمایاں پرتشدد کارروائیاں کی ہیں۔24 مئی کو کراچی پریس کلب کے سامنے انسانی حقوق کی عوامی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی اور جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرین پر پولیس نے تشدد کیا ، انھیں پرامن احتجاج سے روکا اور گرفتاریاں کیں۔