بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں لسبیلہ یو نیورسٹی کیمپس کو علیحد ہ یو نیورسٹی آف نصیر آباد کا درجہ دینے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کی قرارداد منظور کرلی گئی جبکہ رخشان یونیورسٹی خاران کے قیام سے متعلق منظور کی گئی قرار داد پر عملدآمد سے متعلق توجہ دلائو نوٹس پیش کردیا گیا ۔
ہفتہ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء اللہ بلوچ نے اپنے توجہ دلاو نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر تعلیم کی توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب مبذول کراتے ہوئے دریافت کیا کہ رخشان ڈویژن میں تعلیمی زبوں حالی، اعلیٰ تعلیمی اداروں سے محرومی کو ختم کرنے کے لئے حکومت نے اب تک کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔
نیز رخشان یو نیورسٹی خاران کے قیام سے متعلق جو قرار داد اسمبلی سے منظور کی گئی اس پر تا حال کیا پیش رفت ہوئی ہے تفصیل فراہم کی جائے۔
صوبائی وزیر تعلیم میر نصیب اللہ نے کہا کہ بلوچستان میں رخشان ڈویژن سمیت صوبے کے تمام اضلاع میں یونیورسٹیاں بننی چاہیے گزشتہ دنوں چیرمین ایچ ای سی سے اس سلسلے میں ملاقات بھی کی ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کی جامعات کو فنڈز کم فراہم کررہی ہیں جس کے باعث تعلیمی ادارے مالی بحران کا شکار ہیں اور بلوچستان حکومت تنخواہوں کی مد میں صوبائی بجٹ سے فنڈز فراہم کررہی ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے آدھا پاکستان ہے پورا پنجاب صوبے کے ایک ڈویژن کے برابر ہے انہوں نے کہا کہ رخشان ڈویژن سے متعلق فائل پراسس میں ہے اس پر جلد مزید پیش رفت کی جائیگی۔
بعدازاں صوبائی وزیر کی یقین دہانی پر توجہ دلاو نوٹس نمٹا دیا گیا اجلاس میں پشتونخواہ میپ کے رکن اسمبلی نصراللہ زیرے کے عدم موجودگی کی باعث وفاقی لیویز فورس کے سروس اسٹرکچر اور انکی مستقلی کے حوالے سے توجہ دلاو نوٹس کو آئندہ اجلاس کے لئے موخر کردیا گیا۔
اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے بی این پی کی رکن شکیلہ نوید دہوار کی جانب سے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ نصیر آباد ڈویژن جو کہ صوبے کا گرین بیلٹ کہلاتا ہے لیکن تعلیمی اور معاشی لحاظ سے پسماندہ ترین ڈویژن میں شمار ہوتا ہے۔،اوسط تعلیمی شرح 34.4 فیصد ہے۔ 75 سال بعد ڈویژن میں صرف ایک اعلی تعلیمی ادارہ جو کہ لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹراینڈ میرین سائنسز کا کیمپس قائم ہوا ہے جس میں تاحال صرف پانچ ڈیپارٹمنٹ ہیں۔
جہاں ایک ہزار طلباء اور طالبات کومحدود تعلیمی مواقع فراہم ہور ہے ہیں ڈویژن کی آبادی تقریب 17 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے معاشی پسماندگی کی وجہ سے علاقے کے طلباء اور طالبات صوبے اور ملک کے دیگر مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے سے قاصر ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق نصیر آباد ڈویژن کے 10 ہزار سے زائد طلباء اور طالبات نصیر آباد ڈویژن کے 18 مختلف کالجز میں زیر تعلیم ہیں۔
لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگر یکلچرواٹر اینڈ میرین سائنسز کا موجودہ کیمپس علاقے کے طلباء اور طالبات کو اعلیٰ تعلیم کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ اعلی تعلیم کے مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے علاقے کے طلباء اور طالبات سخت مایوس اور احساس محرومی کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنسز کے سب کیمپس میں انفراسٹرکچر بشمول ایڈمنسٹریشن بلاک، ہاسٹل ، لائبریری، ہاوسنگ ، چاردیواری وغیرہ پر 85 فیصد کام بھی ہو چکا ہے۔
لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ نصیر آباد ڈویژن کے طلباء و طالبات کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے یو نیورسٹی کیمپس کو علیحد ہ یو نیورسٹی آف نصیر آباد کا درجہ دینے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کو یقینی بنا ئیں۔ تا کہ نصیر آباد ڈویژن کے طلباء و طالبات کو اعلی تعلیم کے وسیع اور سنے مواقع فراہم ہو سکیں قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے کہا کہ علم شعور و آگاہی کے بغیر قومیں کھبی ترقی نہیں کرسکتی ہے نصیر آباد ایک زرخیز علاقہ ہے مگر افسوس وہاں طلبہ و طالبات کے لیے اعلی تعلیمی مواقع میسر نہیں انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے قیام سے نصیرآباد اور اس سے ملحقہ اضلاع کے طلباو طالبات مستفید ہونگے انہوں نے ایوان سے استدعا کی کہ مذکورہ قرار داد کو مشترکہ طور پر منظور کیا جائے تاکہ یونیورسٹی کے قیام کو جلد سے جلد عمل میں لاکر وہاں درس وتدریس کا آغاز ہو
انہوں نے کہاکہ یونیورسٹی نہ صرف نصیرآباد بلکہ پورے صوبے کے لیے اہمیت کاحامل ہے صوبائی آبپاشی محمد خان لہڑی نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ میرے حلقہ انتخاب میں یونیورسٹی کا یہ کیمپس بننے جارہا ہے جسے گزشتہ حکومت میں منظور کیا گیا تھا
انہوں نے کہا کہ نصیر آباد میں یونیورسٹی کے قیام سے پورے ڈویڑن میں تعلیم کی شرح میں نمایاں بہتری آئیگی اور لوگ استفادہ کرینگے بی این پی کے رکن اسمبلی میر اکبر مینگل نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ نصیرآباد اور رخشان یونیورسٹی کا قیام جلد از جلد عمل میں لایا جائے ساتھ ہی وڈھ کیپس کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے اور خضدار میں شہید سکندر زہری یونیورسٹی اور جھالاوان میڈیکل کیمپس کے لیے فنڈز مختص کئے جائے اور خضدار وویمن یونیورسٹی کے مالی بحران کا حل نکالا جائے تاکہ صوبے سے تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہوسکے انہوں نے کہا کہ بلوچستا ن حکومت تعلیم کو خصوصی ترجیحات میں شامل کرکے یونیورسٹیوں کے مالی بحران کو حل کرے تاکہ نوجوان تعلیم یافتہ ہو انہوں نے کہ ایک پڑھا لکھا بلوچستان ہی ترقی کرسکتا ہے
انہوں نے مطالبہ کیاکہ بلوچستان میں تمام یونیورسٹیوں کے سب کیمپس کو اپ گریڈ کرکے یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے صوبائی وزیر زراعت اسد بلوچ نے کہا کہ صرف لاہور میں ایک سو کے قریب یونیورسٹیاں قائم ہے جبکہ بلوچستان میں صرف 9یونیورسٹیاں قائم ہیں 18ویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیوں کے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں مگر آئین پر عملدرآمد نہیں ہورہا ،انہوں نے کہا کہ ہم 70سال بعد نصیرآباد میں یونیورسٹی قائم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں نوآبادیاتی طرزحکمرانی کواب بند کرکے مساوات اور انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں انہوں نے کہ بلوچستان میں اربوں روپے امن و امان پر خرچ کرنے کی بجائے تعلیم پر خرچ کی جائے تاکہ ہمارے بچے پڑھ لکھ سکیں انہوں نے کہاکہ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل شخص کو پنجگور میں تعینات کیا گیا ہے جس نے ادارے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے
پنجگور کے 10لاکھ کی آباد ی میں ایک شخص بھی اس کی تعیناتی کے حق میں نہیں ہے بی این پی کے رکن اسمبلی ثنا بلوچ نے کہا کہ صوبے میں تعلیمی انقلاب کے نعرے کا آغاز نصیر آباد سے ہوا تھا 1932میں آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں میر یوسف عزیزمگسی نے پورے صوبے میں اسکولوں،تحصیل سطع پر پولی ٹیکنک کالجز کے قیام کا مطالبہ کرنے کے ساتھ نصاب تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا مطالبہ کیا تھا انہوں نے کہا کہ نصیر آباد کی آبادی 28لاکھ تک پہنچ گئی ہے خاران میں یونیورسٹینہ ہونے سے نوجوان زمبادگاڑیاں چلارہے ہیں بوریاں اٹھا رہے ہیں نصیرآباد یونیورسٹی کو میر عزیز مگسی کے نام سے منسوب کیا جائے اور رخشان اور نصیرآباد یونیورسٹیوں سے متعلق کمیٹیاں قائم کی جائیں وڈھ میں یونیورسٹی بنائی جائے یہ ادارے محض نوکریاں فراہم کرنے کے لئے نہیں بلکہ مشعل راہ بنیں انہوں نے کہاکہ آنے والے پی ایس ڈی پی میں خضدار ،رخشان ،نصیرآباد ، وڈھ اور دیگر جامعات کے لئے 2,2ارب روپے مختص کئے جائیں اور آنے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں رخشان اور نصیرآباد یونیورسٹیاں قائم کرنے کی منظوری دی جائے ،
صوبائی وزیر تعلیم میر نصیب اللہ مری نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے ہر علاقے میں یونیورسٹیاں ہونی چائیے ، رخشان، نصیر آباد سمیت کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں بھی یونیورسٹی قائم کی جانی چائیے، انہوںنے کہاکہ میں نے کوہلو میں کیڈٹ کالج، ڈگری کالج، گرلز کالج کے قیام عمل میں لایاہوں پی ایس ڈی پی میں کیڈٹ کالج کا منصوبہ شامل کیا گیا ، آئندہ پی ایس ڈی پی میں یونیورسٹی کیلئے فنڈز مختص کی جائیگی، انہوںنے کہاکہ سابق نمائندوں نے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا ایک اینچ سڑک تک نہیں بنائی ہے۔
بعدازاں پینل آف چیئرمین کی رکن شکیلہ نوید دہوار نے قرار داد منظور کرنے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ نصیر آباد اور رخشان ڈویژن یونیورسٹی کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے وسائل اور فنڈز پی ایس ڈی میں مختص کیا جائے وڈھ یونیورسٹی کیمپس کو اپ گریڈ کرکے یونیورسٹی کا درجہ دیاجائے، اجلاس میں پشتونخوامیپ کے نصر اللہ خان زیرے کی عدم موجودگی کے باعث ان کی پی پی ایچ آئی کے ملازمین کو فی الفور مستقل کرنے سے متعلق قراردادآئندہ اجلاس تک کیلئے موخر کردیا گیا۔ دریں اثناء بلوچستان اسمبلی ارکان نے کہا ہے کہ وفاق کا بلوچستان کے ساتھ روئیہ ہتک آمیز ہے مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
صوبے کی مردم شماری متنازعہ بنائی گئی تو پورے ملک کی مردم شماری متنازعہ ہوگی، اگر وفاقی وزراء کو کمیٹی بنانی ہے تو وہ بین القوامی مردم شماری کمیشن سے مردم شماری کروا لیں ۔
ہفتہ کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پینل آف چیئر پرسن کی رکن شکیلہ نوید دہوار کی صدارت میں شروع ہوا۔اجلاس میں نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ مردم شماری آئین کے دائرے میں رہ کی جاتی ہے بلوچستان پسماندگی اور ناخواندگی کا شکار ہے صوبے کے عوام کی حیثیت کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیاگیا ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی آبادی اس وقت 4کروڑ کے لک بھگ ہے لیکن مردم شماری میں صوبے کی آبادی 2کروڑ 10لاکھ ظاہر کی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کی 12کروڑ آبادی کے اعداد و شمار جعلی ہیں یہ آبادی چھوٹے صوبوں کے استحصال کے لئے بڑھائی گئی رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹے سے صوبے میں 12کروڑ لوگوں کا رہنا ناممکن ہے چمن سے گوادر، کاہان سے چاغی تک ہمیں یک زبان ہو کر بات کرنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ چیف سیکرٹری بلوچستان کو کہا ہے کہ آبادی بڑھی ہے مردم شماری میں درست اعداد وشمار سامنے لائے جائیں ۔انہوں نے کہا کہ سی پیک پر اربوں ڈالر کمائے گئے ، ریکوڈک اور سیندک سے بھی ملک کو چلایا جائے گا ،صوبے کی گیس ملک بھر میں فراہم کی گئی لیکن اسحاق ڈار اور احسن اقبال کو بلوچستان کے لوگ نظر نہیں آتے ہمارے سے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے آبادی میں اضافے سے وفاقی وزراء کیوں پریشان ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پنجگور میں تین لاکھ آباد ی نکال دی گئی وہاں 4لاکھ نئے شناختی کارڈ بنے ہیں ، 3لاکھ بجلی کے بل جاری ہوتے ہیں جو کہ صرف 20فیصد ہے کیونکہ دیگر علاقے میں بجلی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی آبادی کم کرنے سے یہاں احساس کمتری بڑھ رہا ہے وفاق ہمارے فنڈز پر کٹ لگا نا چاہتا ہے ۔پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے کہا کہ ژوب، کوئٹہ ، سبی ڈویژن گنجان آباد علاقے ہیں ،قلعہ عبداللہ اور چمن کی آبادی میں صرف اڑھائی لاکھ کا اضافہ ظاہر کیا گیا ہے جنہوں نے صوبے کی آبادی کم ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے انکے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ 9مئی کے بعد 6دن تک آبادی شمار نہیں ہوئی ہمارے صوبے کو وقت نہیں نہیں دیا گیا ۔
قائد حزب اختلاف ملک سکندر خان ایڈوکیٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کے لئے اسمبلی کی قرار داد بھی منظور کی گئی ہے کہ مردم شماری کے عمل میں 2ماہ کی توسیع کی جائے مردم شماری کے نتائج کے ذریعے ہی وسائل کی تقسیم اور مستقبل کے لائحہ عمل طے ہونگے کوئٹہ کی آبادی کو کم ظاہر کر نے سے یہاں کی 9اسمبلی کی سیٹیں کم ہوکر 6ہو جائیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی سی کی نجکاری کی جارہی ہے جو کہ ملازمین کے ساتھ ناانصافی ہے 500ملازمین کو بیک جنبش قلم نوکریوں سے فارغ کردیا جائے گا ایسا کرنے سے لوگ بے روز گار ہونگے نجکاری سے قبل قانون سازی کے ذریعے ملازمین کو تحفظ بھی فراہم کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہوٹل مالکان پر 800فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے اس پر پہلے بھی تنازعہ ہو ا تھا لہذا حکومت اس ٹیکس کی شرح کو کم کر کے 100سے 200 فیصد تک کرے اور ہوٹل مالکان کے مسائل کو حل کیا جائے ۔
سینئر صوبائی وزیر محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات نور محمد دمڑ نے زرغون ،مسلم باغ میں فورسز پر حملوں کی مذمت کی ۔انہوں نے کہا کہ احتجاج اور ہڑتال کی آڑ میں 9مئی کو جو کچھ کیا گیا اس سے قوم کی دل آزاری ہوئی میں اداروں کے صبر کو سلام پیش کرتاہوں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار سیاست دان بھی ہیں کہ جنہوں نے جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا اور فوج کو سیاست میں گھسیٹا ۔انہوں نے کہا کہ مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی کم ظاہر کی گئی ہے این ایف سی ایوارڈ میں فیصلے آبادی کی بنیاد پر ہوتے ہیں کیا پنجاب کی آبادی کے حوالے سے بھی کسی نے بات کی ہے یا کمیٹی بنائی گئی ہے مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی کم ظاہر کرنے میں قوتیں ملوث ہیں بلوچستان کی مردم شماری متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تو پورے کی مردم شماری متنازعہ ہوگی ۔
بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے کہا کہ وفاقی حکومتیں ہمیشہ بلوچستان کے حوالے سے غلط پالیسیاں بناتی ہیں دنیان میں وسائل کی تقسیم غربت ، ضروریات، علاقے ،پسماندگی کو مد نظر رکھ کی جاتی ہے بلوچستان کو کوئی بھی اپنا گھر تصور نہیں کرتا صوبے کے لوگوں کو ہر ادارے میں نظر انداز کیا جاتا ہے اسلام آباد کا رویہ بلوچستان کے ساتھ ہتک آمیز ہے بلوچستان کے افسران پر مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے دبائو ڈالا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ بلوچستان کی مردم شماری کی تصدیق سپارکو سے کروائیں گے اگر سپارکو کو انتامعلوم ہوتا تو وہ اسامہ بن لادن کے آپریشن والے جہاز پکڑ لیتے ۔انہوں نے کہا کہ صوبے کو غربت، پسماندگی کی بنیاد پر حصہ نہیں دیا گیا۔
احسن اقبال نے سی پیک کے ارلی ہارویسٹ کے نام پر بھی ہم سے دروغ گوئی کی تھی اگر انہیں مردم شماری کروانی ہے تو بین القوامی مردم شماری کمیشن سے کروائیں وفاق نے مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی کم کی تو ہم احتجاج کریں گے ۔بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ کوئٹہ میں ہر قوم مذہب کے لوگ رہتے ہیں پہلے یہاں کی آبادی 23لاکھ تھی اب کم سے کم 50لاکھ ہونی چاہیے تھی شہر کی آبادی کو کم شرح سے بڑھایا گیا ہے دور دراز علاقوں میں کئی روز تک لوگ پہنچ نہیں پائے تھے 10دن تک خانہ شماری کا عمل شروع نہیں ہوا تھا ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ مردم شماری کے وقت جن لوگو انہوں نے حالات کی خرابی کے باعث نقل مکانی کی تھی اب وہ آگئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چیئر پرسن رولنگ دیں کہ مردم شماری میں بلوچستان اسمبلی کی قرار داد کے تحت توسیع کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کی 9یونین کونسل میں صفائی کی صورتحال ابتر ہے ان کی صفائی کے لئے 1ارب روپے جاری کئے جائیں ۔
اس موقع پر چیئر پرسن شکیلہ نوید دہوار نے رولنگ دی کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے عوام کے احساسات کو مجروح کرنے کے بجائے مردم شماری کے نتائج کو من و عن تسلیم کرے ، جہاں مردم شماری کم ہوئی ہے وہاں عمل کو جاری رکھا جائے وفاق میں بیٹھے بلوچستان کے نمائندگان بھی اس حوالے سے دلچسپی لیں اور بلوچستان اسمبلی کی قرار داد پر عملدآمد نہ ہونے پر بھی ایک پیج پر آئیں ۔ انہوں نے رولنگ دی کہ سیکرٹری اسمبلی وزیر بلدیات کو خط لکھیں کہ کوئٹہ کی 9یونین کونسلز کی صفائی کے لئے اقدامات کریں خط کی کاپی وزیراعلیٰ بلوچستان اور چیف سیکرٹری بھی ارسال کی جائے ۔