کیچ:
سابقہ مرکزی سینئر جوائنٹ سیکرٹری بی ایس او انیس احمد بلوچ نے کہا کہ پنجگور (آل پارٹیز) (انجمن تاجران) (زامیاد ٹینکرز کمیٹی) (آٹوز و گیراج یونین) (مزدور طبقہ) اور بارڈر سے منسلک ہزاروں افراد کی گذشتہ ریلی میں شامل بارڈر بندش اور ٹوکن سسٹم کے خلاف منظم و متحرک انداز اور انکی شرکت نے ثابت کردیا کہ بلوچستان کے عوام ظلم و جبر، نا برابری، معاشی بدحالی، بیروزگاری اور تعصبانہ عمل کے خلاف ہر وقت اکٹھے ہوکر اپنے بنیادی سیاسی معاشی معاشرتی حقوق کے حصول کیلئے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔
آج بھی بلوچستان میں ظلم کی انتہا اور وقت کی بے رحمانہ نظام کی داستان اپنے عروج پر ہے ہر طرف عوامی جبر معاشی استحصال لاقانونیت ریاستی دہشت گردی وسائل کی لوٹ کھسوٹ عام ہوتا جارہا ہے- تاریخ کی ستم ظریفی یہی ہے کہ ریاستی حکمرانوں نے بلوچ کو آج تک بحیثیت قوم تسلیم نہیں کیا ہے۔صرف بلوچ کی ساحل وسائل گیس (سیندک) (ریکودک) اور دیگر معدنیات پر نظریں جمائے اور قبضہ کر رکھا ہے اور لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے-
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مایوسی اور بدحالی کا رواج قائم ہے، ملک میں پارلیمانی نظام اور آمریت دونوں ادوار میں تیز تلوار صرف بلوچوں کے گردن کے نشانے پر رہا ہے اور ظلم و جبر، فوجی آپریشن، بلوچ کی جبری گمشدگی، ٹارچرز اور قیدوبند کی ازیت ناک ظالمانہ پالیسیوں کو برداشت کرکے بلوچ آج بھی ایک اکائی کے طور پر ملک کے شہری ہیں جتنا حق اور برابری دیگر اکائیوں کو حاصل ہے بلوچوں کے بنیادی حقوق کو بھی تسلیم کرنا چاہیے اور ایک ملک کے شہری سمجھ کر جینے کا حق دینا چاہیے-
بلوچستان اپنے بنیادی سیاسی معاشی معاشرتی حقوق سے محروم ہے، بیروزگاری دہشت گردی امن وامان کی صورتحال گھمبیر ہوتا جارہا ہے وفاق اور صوبہ بلوچستان کے معاشی بدحالی اور بیروزگاری کو ختم کرنے میں کھبی بھی سنجیدہ نہیں رہا ہے۔ بلوچ اپنے بہتر مستقبل اور بچوں کی پرورش کے لیے خلیجی ممالک کا رخ کرتے رہے اور کئی سالوں سے ہمسایہ ملک ایران بارڈر کو اپنا ذریعہ روزگار سمجھ کر محنت مزدوری کرتے تھے بلکہ اسی بارڈر کی کاروبار سے (مکران) (قلات) اور (رِخشان ڈویژن) کے محنت کش عوام، مزدور، دہکان، دکاندار، ٹرانسپورٹرز اور ہر طبقے گزربسر کرتے تھے ہر گھر کی معاشی حالات اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں کافی مدد ملتا تھا بارڈر کی وجہ سے بازاروں کی رونقیں اور کاروبار میں ایک خوشحالی کا ماحول تھا مگر ظلم کی داستان جابر حکمرانوں نے ایک بار پھر دھراتے ہوئے اس در کو بھی ھمیشہ کیلئے سیل کرکے عوام کو نان شبینہ کا محتاج بنایا-
گذشتہ (9) مہینوں سے بارڈر بندش کی وجہ سے عوام اذیت ناک حالات سے دوچار ہیں ریاست کی زمہ داری ہے کہ اپنے عوام کی معاشی حالات کو بہتر بنائے اور روزگار مہیا کرے مگر بدقسمتی سے جو روزگار اور کاروبار کا رہل پہل چل رہا تھا اسے دانستہ طور پر بند کرکے محدود کردیا گیا ہے اور (ٹوکن سسٹم) کی جابرانہ نظام مسلط کرکے عوام اور کاروباری طبقے کو شدید مشکلات میں دھکیل دیا گیا ہے آج اس (ٹوکن سسٹم) کے خلاف ہر طبقہ سراپا احتجاج ہے، اس نظام میں محنت مزدوری کم یہاں کےعزت دار لوگوں کی تذلیل کا رواج قائم کیا گیا ہے جو کہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے-
آل پارٹیز، انجمن تاجران، زامیاد ٹینکر کمیٹی، مزدور طبقہ، آٹوز گیراج یونین نے (ٹوکن سسٹم) کو یکسر مسترد کردیا- ماضی کی طرح بارڈر میں آزادانہ کاروبار کی اجازت ہونی چاہئے(ٹوکن سسٹم) میں عوامی اجتماعی مفادات بلکل شامل نہیں بلکہ عوام کی تذلیل کا نظام رائج کیا گیا ہے (آل پارٹیز) و (انجمن تاجران) پنجگور اپنے احتجاج کو وسعت دینے کے لیے (مکران) (قلات) اور (رخشان ڈویژن) میں (آل پارٹیز) (انجمن تاجران) اور (ٹرانسپورٹرز) اور ہر طبقے کو شامل کریں۔ بارڈر بندش کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرکے عوام کے کاروبار کو تحفظ دیں۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.