کوئٹہ:
زیارت میں جعلی مقابلے میں جبری لاپتہ افراد کی ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنا آج تیسرے روز جاری جس میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین شامل رہے- جبکہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا کہ رواں ماہ 14 اور 15 جولائی کے درمیان زیارت کے مقام پر سیکورٹی فورسز کے جانب سے مقابلے کا دعوی کرتے ہوۓ 9 افراد کو مارنے کا اعلامیہ جاری کیا گیا، جب مارے گئے افراد کی لاشیں سول ہسپتال لائی گئیں اور ان کے تصویر وائرل ہوۓ تو آہستہ آہستہ لاپتہ افراد کے خاندانوں کو علم ہوا کہ اس آپریشن میں جن افراد کی لاشیں ملی ہیں یہ پہلے سے ریاستی اداروں کے زیر حراست میں تھے۔ جب لاپتہ افراد کے خاندانوں نے اپنے اپنے پیاروں کی تلاش شروع کی تو پہلے مرحلے میں 5 افراد کی شناخت ہوئی جن میں انجینئر ظہیر بلوچ ، ڈاکٹر مختیار بلوچ ،شهراد بلوچ، شمس ساتکزئی اور سالم کریم شامل تھے۔ ان کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی شناخت کرتے ہوۓ ان کی جبری گمشدگی کے ثبوت پیش کیے۔ ان میں سے ظہیر اور شہزاد کے لواحقین گزشتہ کئی مہینوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کر رہے تھے۔ جبکہ اس کے بعد مزید دو افراد کی شناخت جمعہ خان مری اور شاہ بخش مری کے ناموں سے ہوئی ہے جنہیں مختلف اوقات میں جبری طور پر اٹھایا گیا تھا جس سے یہ بات عیاں ہوئی کہ زیارت کے مقام پر ایک جعلی مقابلے کا دعوی کرتے ہوئے لاپتہ افراد کو مار کران کی لاشیں پھینکی گئی ہیں ۔اس واقعے سے ہزاروں لاپتہ افراد کے خاندان اس اذیت میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ کہیں ان کے پیاروں کو بھی ایسے شہید نہ کیا جائے-
انہوں نے کہا کہ حالیہ واقع اس بات کا ثبوت ہے کہ لاپتہ افراد سیکورٹی فورسز کے زیر حراست میں ہیں اور ان کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ہے ۔ جبکہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل متعدد دفعہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جعلی مقابلے میں لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں ۔ اس حالیہ غیر قانونی، غیر آئینی اور انسانیت سوز واقعے کے خلاف بلوچ سیاسی جماعتوں اور لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاجی دھرنا دینے کا فیصلہ کیا تھا جسے روکنے کیلئے پولیس کی جانب سے شدید جبر وتشدد کا استعمال کیا گیا مگر ان مظالم کے باوجود یہ دھرنا وزیراعلی اور گورنر ہاؤس کے سامنے جاری ہے-
احتجاجی دھرنے کے مطالبات پیش کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ہمارے 3 بنیادی مطالبات ہیں جن میں زیارت واقعے پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل، تمام لا پتہ افراد کی با حفاظت رہائی اور لاپتہ افراد کو اس بات کی یقین دہانی کہ پھر دوبارہ بھی کسی بھی زیر حراست شخص کو جعلی مقابلوں میں نشانہ نہیں بنایا جاۓ گا، شامل ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب تک بلوچ عوام کی جانب سے شدید احتجاج اور رومل کے باوجود زیارت میں انسانیت سوز واقعے پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے جبکہ وزیر داخلہ ضیاء لانگو کے اس پر یس کا نفرنس کی شدید الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے جن میں وہ لا پتہ افراد کو دہشتگرد قراردینے کی کوشش کر رہے ہیں- افسوس کا مقام ہے کہ گزشتہ 3 دنوں سے گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج جاری ہے اور اب تک کسی بھی حکومتی وفد نے سنجیدہ مذاکرات کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ پریس کا نفرنس کی توسط سے بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم اور جبر کے خلاف بلوچستان بھر میں اظہار ہمدردی کیلئے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کریں جبکہ حکومت کو منگل تک کا وقت دیتے ہیں اگر انہوں نے دھرنے کے جائز مطالبات تسلیم نہیں کیے اور اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی تو منگل سے بلوچستان بھر میں احتجاجی سلسلوں کا آغاز کیا جاۓ گا اور حالات کی خرابی کی تمام زمہ داریاں سیکورٹی اداروں اور حکومت بلوچستان پر عائد ہونگے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.