:تربت
اتوار کے روزحق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی سربراہی میں عوامی مشاورتی اجلاس سرکٹ ہاؤس تربت میں منعقد ہوا جس میں جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی کے علاوہ جماعت اسلامی اور حق دو تحریک کارکنان موجود تھے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری امیر العظیم نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ کراچی سے خیبر، گوادر سے کشمور کروڑوں پاکستانی غلامی کی زنجیروں میں جھکڑی ہیں، یہ زنجیریں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے پہنائی ہیں، حکمران طبقہ عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے، جمہوریت کے نام پر موروثی سیاست ہورہی ہے، باپ کے بعد بیٹا اور بیٹا کے بعد دوسرا بیٹا ہمارے حکمران بن جاتے ہیں، غلامی کی ایک اور زنجیر امریکہ ہے جس نے اس ملک پر ان دیکھی حکومت کررکھی ہے، ہمیں بطور عوام معلوم نہیں ہوتا مگر واشنگٹن سے خبر پہنچتی ہے کہ ہمارے کون کون سے اڈے امریکہ کے پاس ہیں، لاہور والوکو پتہ نہیں ہوتا مگر امریکہ سے خبر آتی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کون ہے جو یہاں دہشت پھیلاتا ہے، لوگوں کو یہ پتہ نہیں چین سے کس معائدے کے تحت قرضہ لیا جارہا یا امداد لی جارہی اب ہم عوام نہیں رہے بلکہ غلام ہیں، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ایک مزاق ہے اس کے پیچھے چند گھرانوں کو نوازنے کا فلسفہ کارفرما ہے، ہم اب کالونی کے ادوار میں پہنچ چکی ہیں، بڑی بڑی کمپنیاں ہیں جو آکر قبضہ گیری کے اس منصوبے میں اپنا شکنجہ مضبوط کررہے ہیں ہم رعایا ہیں اور حکمران ہمارے بادشاہ ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں عدم اعتماد ایک ڈرامہ ہے یہ اندھے اعتماد کا اڈرامہ ہے رعایا کو کہا جارہا ہے کہ ہم پر اندھا اعتماد کیا جائے، ملک کی حالت میں تبدیلی کا جھوٹا وعدہ کیا جارہا ہے،نئے خواب دکھا جارہے ہیں لیکن انتخابات کے بعد ہر معاملے میں یوٹرن لیا جاتا ہے، جو پارٹیاں عوام سے اندھا اعتماد کی اپیل کررہی ہیں عوام کو ہوشیار ہونا چاہیے اپنی آنکھیں کھول لینی چاہیں ورنہ ہماری نسلیں انصاف اور روٹی کے لیے ترستی رہیں گی، حکمران ایک طرف، ہم عدالتوں پر بھی اندھا اعتماد کر بیٹھتے ہیں، عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی جاتی ہے اور اس کے پیچھے مقاصد پوشیدہ کیے جاتے ہیں، ہمارے چیف جسٹس پوری دنیا میں مشہور ہوتا ہے اسے امریکہ میں جانا جاتا ہے اس سے عدالتی نظام مذید ابتر ہوتا ہے، ہر ادارہ چاہتا ہے کہ ان پر اندھا اعتماد کیا جائے۔ عوام کو کہنا چاہتی ہے ۔
امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی تعریف میں انسانی امور پر توجہ دینا شامل ہے، ان میں سب سے مفید کام عوام میں شعور بیدار کرنا اور حکومت کے ان فرائض کے بارے میں آگاہی دینا ہے کہ وہ اپنے عوام کو کیا سہولتیں دے سکتی ہیں، اگر لوگوں میں شعور بیدار ہوگیا تو وہ اپنے ہر فیصلے میں آزاد ہوں گے، جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ وہ کسی کی آشیا بردار نہیں بنے گی، عوام کو آگاہ کرنا، ظلم اور حق کی شناخت بیدار کرنے کا جماعت اسلامی نے بیڑا اٹھایا ہے، بلوچستان میں شعور پھیل چکا ہے اور حق دو تحریک کی صورت میں حق شناسی کا شعور بیدار ہوا ہے جو ایک بہت بڑکارنامہ ہے، یہ ایک لمبی جدوجہد ہے اس کا آغاز کسی نہ کسی طرح تو ہونا تھا، مکران اور بلوچستان میں لوگوں نے منافقت اور جھوٹ کی پہچان کی ہے، عوامی نمائندوں نے عوامی خواہشات کو ملیامیٹ کیا، لوگوں کے اندر شعور بیدار کرنا ایک تاریخ ساز کام ہے جماعت اسلامی اس کی پشت پر کھڑی ہے، بلوچستان کو اللہ نے بے شمار خزانوں سے مستفید کیا ہے لیکن ان خزانوں کو سالوں سے لوٹا جارہا ہے، اس لوٹ مار میں ہمارے ووٹ سے منتخب وزرا شامل ہیں، سیندک سے کتنا سونا اور کتنی چاندی نکالا گیا یے کسی کو نہیں پتہ، یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے لوٹ کر لیجایا گیا، ہمیں ابھی تک نہیں معلوم اس میں کتنا سونا نکلا، اسی کہانی کو اب ریکوڈک معاہدے کی صورت دہرائی جارہی، ریکوڈک کا معائدہ مشاورت کے بعد ایک مکینزم کی صورت کیا جائے اور اس میں تمام حقائق بیان کیے جائیں، جو کمپنی سرمایہ کاری کررہی ہے اسے پابند کیا جائے کہ وہ یہاں ریفائنری بنائے، منرل سائنسز اور میٹا سائنس کی انسٹی ٹیوٹ بنایا جائے تاکہ یہاں کے نوجوان اس کی سائنس کو سمجھیں، اگر اس معائدے کے اندر ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے تو ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے۔
حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ 27 مارچ کو بلوچستان کی تاریخ میں ایک نسبت ہے، جبری قبضہ گیری سے لے کر آج تک بلوچستان کو ایک کالونی سمجھا جارہا ہے، ہماری تحریک کا پہلا مطالبہ ہے کہ ایف سی کو بلوچستان سے نکالا جائے، ریاست کے خلاف بلوچستان میں حالات را نے نہیں بلکہ ایف سی نے خراب کیے ہیں، اگر بلوچستان کو پاکستان کے ساتھ رکھنا ہے تو ایف سی کا فوری انخلا لازمی ہے، دوسرا مطالبہ لاپتہ افرادکی باحفاظت بازیابی ہے، پورے بلوچستان میں ایسا کوئی گھر نہیں بچا جہاں ایک فرزند لاپتہ نہیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں سب سے زیادہ کرپٹ اور مجرم وزیر اعظم، ایم این اے، صوبائی وزیر یا سنیٹر بنے گا اور یہی کرپٹ لوگ حکمران بن کر ہمارے لیے قانون سازی کریں گے، انہوں نے کہاکہ حق دو تحریک کا تیسرا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے شہریوں کو تیسرے درجے کا شہری یا غلام بنانے کی سوچ ختم کی جائے، ہمیں ہر قدم پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم پاکستان میں غلام ہیں، ہماری ماؤں نے ہمیں آزاد جنا ہے تو ہم آزاد رہنا چاہتے ہیں، بندوق کے زور پر کسی قوم کو غلام بنایا نہیں جاسکتا اس کی مثال افغانستان سے امریکی انخلا ہے، ریاست اور اس کے حکمران جان لیں کہ بلوچ اس ریاست میں کسی طور پر غلام نہیں بنیں گے، ریاست میں کلبھوشن اور ریمندڈیوس کو عزت دی جاتی ہے لیکن بلوچ کو عزت دینے پر ریاست تیار نہیں ہے، ٹرالر مافیا، منشیات فروش، قبضہ گیر سب آزاد ہیں ان کو فری ہینڈ دیا گیا ہے، بلوچستان میں دس لاکھ نوجوان منشیات کے عادی ہیں اور یہ سب ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے،۔
انہوں نے کہا عید کے بعد کاروان حق دو کے نام سے تحریک چلائیں گے اور دس لاکھ لوگ کوئٹہ میں جمع کرکے دھرنا دیں گے۔ گوادر کے دھرنے میں حکمرانوں کی ٹانگیں لرز گئی ہیں جب کوئٹہ جائیں گے تو بڑے بڑوں کی ٹانگیں کانپ جائیں گی۔