پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ایک سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے، ہزاروں افراد لاپتہ ہیں، جبری گمشدگیوں کی سب سے زیادہ تعداد بلوچستان سے ہے. گزشتہ دو دہائیوں میں بلوچستان سے 40 ہزار سے زیادہ لوگ لاپتہ کئے گئے ہیں، جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل قومی اسمبلی میں 5128 لاپتہ افراد کی لسٹ جمع کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن اور بلوچ ریپبلکن پارٹی نے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے عالمی سطح پر منظم کمپین کرکے دنیا کی توجہ اس سنگین انسانی مسئلے کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔
جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار مسنگ پرسنز کی جانب سے طویل احتجاج کا سلسلہ جاری ہے 2009 سے ماما قدیر بلوچ و لاپتہ افراد کے لواحقین کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہوئے ہیں اس کے علاوہ ماما قدیر بلوچ اور فرزانہ مجید کی سربراہی میں کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک طویل لانگ مارچ کیا گیا اب ان دنوں ماما قدیر بلوچ کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ 11 فروری سے وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کی قیادت میں لاپتہ افراد کی لواحقین اسلام آباد پریس کلب کے باہر احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
بلوچ، سندھی، پشتون اور مہاجر سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے جبری گمشدگیوں کے خلاف 14 فروری بروز اتوار ایک مشترکہ سوشل میڈیا کمپین #EndEnforcedDisappearances اس ہیش ٹیگ کیساتھ چلانے کا اعلان کیا ہے اور تمام سندھی، بلوچ، پشتون، مہاجر سمیت دیگر سوشل میڈیا ایکٹوسٹس سے اپیل کی گئی ہے کہ جبری گمشدگیوں کیخلاف اس کمپین کا حصہ بنکر لاپتہ افراد کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کا یہ غیر انسانی اور غیر قانونی سلسلہ روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ اور وائس فار مسنگ پرسنز سندھ کے رہنما سسی لوہار نے سندھی، بلوچ، پشتون، اردو اسپیکنگ اور پنجابی انسانی حقوق کی کارکنوں سمیت دیگر تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے کمپین میں حصہ لینے کی اپیل کی ہے جبکہ بلوچ ہیومن رائٹس کونسل (بی-ایچ-آر-سی) نے کمپین کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ لاپتہ افراد کی لواحقین ہم سے رابطہ کریں ہماری تنظیم ان کے کیسز اقوام متحدہ کی جبری گمشدگیوں کے خلاف ورکنگ گروپ میں ان کے کیسز جمع کرانے میں ہر قسم کی مدد فراہم کرے گی.