کوئٹہ سمیت بلوچستان بھرمیں بارشوں اور سیلاب کے متاثرین کی مشکلات کم نہ ہوسکیں۔ شدید سردی کا موسم شروع ہونے کے باوجود متاثرین آج بھی کھلے آسمان تلے حکومتی امداد اور بحالی کے منتظر ہیں۔
متاثرین درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرنے کے باوجود گزشتہ 4 ماہ کے بعد بھی خیموں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
حالیہ سروے کے مطابق صوبے کے 32 اضلاع میں 321019 مکانات کو نقصان پہنچا جبکہ 250137 مکانات مکمل طور پر منہدم ہوچکے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی محض دعوں اور سروے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ 2023نیا سال شروع ہوچکا ہے لیکن بلوچستان بھر میں گزشتہ سال 2022میں ہونے والی مون سون بارشوں اور سیلاب متاثرین حکومتی امداد اور بحالی کے منتظر ہی نظر آرہے ہیں۔منفی درجہ حرارت میں متاثرین سیلاب تا حال گزشتہ چار ماہ بعد بھی خیموں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں زندگی کس قدر کٹھن اور مشکل ہوجاتی ہے۔ یہ سیلاب متاثرین اور خیموں میں کھلے آسمان تلے شدید سرد موسم میں زندگی گزارنے والے ہی بتا سکتے ہیں کہ کوئی ان سے پوچھے جن کی زندگی بھر کی جمع پونجی چند لمحوں میں قدرتی آفت کی نذرہوجا ئے۔ اورانسان اپنے ہنستے بستے گھر سے بے گھر ہوکر روڈ پر آجائے۔
ایسے ہی حالات کا سامنا ہے کوئٹہ میں سیلاب متاثرین کو ان کے گھر چار ماہ قبل سیلاب کی نذر ہو گئے تھے۔اب سر پر چھت ہے اور نہ ہی بحالی کا کوئی آسرامنفی درجہ حرارت اور یخ بستہ ہواں میں یہ متاثر ہ خاندان بے یارومددگار زندگی گزارنے پر مجبورہے۔
خیال رہے گزشتہ سال یکم جون سے 25اگست تک ہونے والی مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوا تھا۔ بلوچستان میں بر سراقتدار مخلوط حکومت کی کارکردگی محض دعوں اور سروے تک ہی محدود نظر آ رہی۔
سرکاری سروے کے مطابق کوئٹہ سمیت بلوچستان کے 32 اضلاع میں 321019 مکانات کو نقصان پہنچا اور ان میں 250137 مکانات مکمل طورپر تباہ ہوئے ہیں اور سال 2022گزر گیا۔ لیکن بلوچستان میں لاکھو ں سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام شروع نہ ہوسکا۔
گزشتہ سال مون سون بارشوں کی تباہ کاریوں کے بعد، بلوچستان میں جہاں تعلیم اور صحت کے شعبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں وہاں سرد موسم کی آمد سے متاثرین کے مسائل میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.