کوئٹہ:
بلوچستان کی طلبا تنظیموں کے اتحاد “طلباء تنظیم اتحاد” کی جانب سے پریس کانفرنس کیا گیا جس کا متن درج زائل ہے؛
بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں تعلیمی نظام نہایت ہی مخدوش ہے۔ بلوچستان کا شمار ایک ایسے خطے کے طور پر کیا جاتا ہے جہاں خواندگی کی شرح نہایت ہی کم ہے۔ صوبے میں اعلی تعلیمی ادارے نہایت ہی قلیل اور محدود تعداد میں موجود ہیںں لیکن یہ تعلیمی ادارے بھی ابتر اور زبوں حالی کا شکار ہیں۔ بلوچستان کے تعلیمی نظام کی مخدوشی ، تعلیمی اداروں کی ابتری اور طلبا کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی، پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار کی جانب سے ایک الائنس “طلبا تنظیم اتحاد” کے نام سے تشکیل دی گئی ہے جو منظم انداز میں طلبا کو درپیش مسائل حل کرنے کی جدوجہد کرے گی۔
سب سے پہلے ہم آپ کی توجہ ایگرلکچرل کالج کوئٹہ کی جانب مبزول کرانا چاہتے ہیں کہ جہاں گزشتہ ڈیڑھ سال سے داخلوں کا تسلسل انتظامی طور پر روکا گیا ہے۔ بلوچستان کے واحد ایگریکچرل کالج میں داخلوں کو بغیر کسی جواز کے روکنا طلبا کی حق تلفی اور ان کے تعلیمی کیرئیر کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے طلبا تنظیم اتحاد نے کل بروز بدھ کو کالج کے پرنسپل سے ملاقات کیا گیا اور اُن سے استدعا کی گئی کہ جامعہ میں داخلوں کے تسلسل کو جلدازد جلد بحال کیا جائے تاکہ طالبعلم اپنے تعلیمی کیرئیر کو جاری رکھ سکیں۔ جامعہ انتظامیہ نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ داخلوں کے تسلسل کا آغاز ایک ہفتے میں کیا جائے گا اور اگر اس دورانیے میں داخلوں کا آغاز نہیں کیا گیا تو طلبا تنظیم اتحاد ایک سخت موقف اختیار کرتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
گزشتہ ماہ بارشوں کے باعث رونما ہونے والی قدرتی آفت نے جہاں صوبہ بھر کی عوام کو جانی حوالے سے نقصانات سے دوچار کیا تو وہیں اس آفت کے باعث عوام معاشی حوالے سے تباہ حالی کا شکار ہو چکی ہے۔ اس طرح کے حالات میں طلبا کو فیسوں کی ادائیگی میں نہایت ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جامعات کی بھاری فیسیں طالبعلموں کی تعلیمی کیرئیر میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت بلوچستان تمام تر جامعات میں زیر تعلیم طلبا کے رواں سیمیسٹر فیسوں کو معاف کرنے کا اعلان کرتی۔ لیکن اس کے برعکس جامعہ بلوچستان اور دیگر جامعات میں فیسیں نہ بھرنے کے باعث طالبعلموں کو امتحانات میں بیٹھنے سے روکا جارہا ہے جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔ اس کے علاوہ آئی ٹی یونیوسٹی میں مسلسل کے ساتھ فیسوں میں اضافہ کیا جارہا ہے اور تمام تر تعلیمی ادارے مالی بحران کا شکار ہیں۔ سائنس کالج اور آئی ٹی یونیورسٹی کے ہاسٹل بھی عرصہ دراز سے بندش کا شکار ہیں اور طالبعلم پرائیویٹ ہاسٹل میں رہائش پر مجبور ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں میں مالی بحران کا مستقبل حل نکالے۔
بلوچستان کے تمام تر جامعات میں طلبا سیاست پر قدغن عائد کی جاچکی ہے اور طلبا کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کےلیے مختلف ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس کو پروان چڑھانے کےلیے تعلیمی اداروں کے احاطے سے طالبعلموں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے جس کی واضح مثال گزشتہ سال یکم نومبر 2021 کو جامعہ بلوچستان کے ہاسٹل سے دو طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی جبری گمشدگی ہے۔ دونوں طالبعلموں کی بازیابی کےلیے طلبا تنظیموں نے یکمشت ہو کر جدوجہد کی اور حکومتی یقین دہانی پر اپنا احتجاجی دھرنا ختم کیا۔ لیکن ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باجود دونوں طالبعلموں کا تاحال کوئی پرسان حال نہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی شعبہ فارمیسی کے ایک اور طالبعلم سعیدالللہ کو 5 ستمبر کو جبری طور پر اغوا کیا گیا جن کا تاحال کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم حکومت بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جبری طور پر لاپتہ طالبعلموں کی جلد از جلد بازیابی یقینی بنائی جائے اور تعلیمی اداروں سے طالبعلموں کی جبری گمشدگی جیسے عمل کی بیخ کنی کی جائے۔
اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم حکومت بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے مطالبات پر جلداز جلد عملدرآمد کرتے ہوئے عملی اقدامات کی جائیں۔ اگر ہمارے مطالبات پر عملدار آمد نہیں کیا گیا تو جمہوری طرز طریقہ اپناتے ہوئے سخت احتجاج کی جائے گی۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.