مستونگ کلی غزگی سے 23مئی کو عبدالخالق ملازئی کی تقریبا 8سالہ معصوم بچی لاپتہ ہوگئی تھی جو تاحال بازیاب نہیں ہوسکی،بچی کے والد عبدالخالق ملازئی، ملازئی قبائل کے سرکردہ شخصیات میر سکندر خان ملازئی،غلام قادرملازئی ٹکری محمد اسماعیل ملازئی، ممتاز ملازئی، عبدالرزاق ملازئی،غلام فاروق ملازئی، سیف اللہ سارنگزئی، ظہوراحمد، بشیراحمد، حافظ محمد اشرف بنگلزئی، محمد اعظم بنگلزئی، سید عبداللہ شاہ، و دیگر نے سراوان پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 23 مئی 2022ءکو عبدالخالق ملازئی کی 8 سالہ معصوم بچی گھر کے سامنے سے لاپتہ ہوئی جس کا ہم نے بروقت پولیس انتظامیہ کو اطلاع دی اور مقدمہ درج کرتے ہوئے ملزمان عبدالظاہر و دیگر کو نامزد کیا جس پر پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے تین چار ملزمان کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کردی، ملزمان نے نے بچی کو لاپتہ کرنے کا اعتراف بھی کیا اور ملزمان بار بار اپنے بیان بدلتے رہے ہیں اور ملزمان کی نشاندھی پر پولیس نے آماچ کے پہاڑی علاقے میں بھی گئے مگر ہماری بچی دو ماہ سے زائد گزرنے کے باوجود پولیس تھانہ کے تفتیشی آفیسر کی تفتیش میں سست روی کے باعث آج تک بچی کو بازیاب نہیں کیا جاسکا، تفتیشی افسر کے ساتھ ساز باز سے اب ایک نامزد ملزم جو شامل تفتیش ہے انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا۔ انھوں نے کہاکہ پولیس تفتیش میں کیس کو انتہائی کمزور بنادیا ہے اور ہمارے ساتھ تعاون نہیں کی گئی، اور بچی کے والد و والدہ اور دادا کے بیانات بھی پوری طرح قلم بند نہیں اور کیس کو کمزور بنادیاگیاہے،انھوں نے کہاکہ ہم نے قبائلی طور پر خود مختلف علاقوں میں بچی کو ڈھونڈنے گئے مچھ میں ہمیں ایک دکاندار سے معلوم ہوا کہ قاضی ظاہر کے ساتھ کچھ دن ایک بچی تھی وہ میرے دکان سے بچی کیلئے چیزیں خریدتا تھا۔ہم ایس پی کے پاس گئے اور تمام نشاندہی کی پولیس نے بھی مذکورہ دکاندار کا بیان لیا۔ انھوں نے کہاکہ ہم انتظامیہ سمیت ہر دروازے پر گئے مگر اس کے باوجود ہماری بچی کو بازیاب نہیں کرایا جاسکا اور ہمیں معلومات ہے کہ ہماری بچی زندہ ہیں، اور اس وقت بچی کے اہل خانہ سخت کرب میں مبتلا ہے اور انکی نظریں ہمیشہ دروازے پر لگی رہتی ہیں اور بچی کا راہ تکتے ہوئے سخت اذیت ناک حالت سے گزر رہے ہیں۔ انھوں نے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، وزیراعلی بلوچستان، چیف سیکرٹری بلوچستان، آئی جی پولیس بلوچستان محکمہ داخلہ اور ڈپٹی کمشنر مستونگ سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ اسپشل ٹیم تشکیل دے کر بچی کو بازیاب کرایا جائے، اور ہمارے کیس کو کمزور کرنے پر متعلقہ آفیسران کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے بصورت دیگر ہم سخت سے سخت احتجاج پر مجبور ہونگے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.