دھرنے میں وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز اور اتحادی تنظیموں کے کارکنان سمیت جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی کثیر تعداد شریک ہیں –
دھرنے میں جبری لاپتہ بلوچ سماجی کارکن راشد حسين کی والدہ نے بھی شرکت کی- تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں زیارت میں پاکستانی فورسز نے جعلی آپریشن کے نام پر پہلے سے جبری لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں شہید کرکے انکی لاشیں پھینکی گئیں، جنکے لواحقین انکی بازیابی کیلئے مسلسل احتجاج کرتے آ رہے تھے، اسکے باوجود ان کو شہید کرکے ان کی وابستگی کسی مسلح تنظیم سے ظاہر کی گئی جو ریاستی بوکھلاہٹ سمجھا جاتا ہے، ریاستی اداروں اور فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد کے فیک انکاؤنٹر میں ماورائے قانون قتل کے خلاف اور جبری لاپتہ افراد کے زندگیوں کو لاحق خطرات کے پیش نظر پچھلے سات دنوں سے بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین دوسرے تنظیموں کے کارکنان سمیت گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے احتجاجی دھرنا دئیے بیٹھے ہیں-
دھرنے سے موصولہ اطلاعات کے مطابق آج حکومت بلوچستان کی طرف سے رجسٹرار ہائی کورٹ آف بلوچستان کو ایک لیٹر لکھا گیا ہے جس کی کاپی ہمیں موصول ہوئی ہے جس میں ہائی کورٹ کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے لکھا گیا ہے جس کا عنوان ہے کہ “اس بات کی تحقیقات کی جائے کہ آیا زیارت میں قتل ہونے والے افراد پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد تھے کہ نہیں”
واضح رہے کہ دھرنا کے شرکاء اور لاپتہ افراد کے لواحقین نے تین سادہ سے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ زیارت سانحہ پہ جوڈیشل کمیشن قائم کی جائے، تمام لاپتہ افراد کی رہائی جلد از جلد ممکن بنائی جائے اور تمام لاپتہ افراد کے لواحقین کو یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ انکے جبری لاپتہ زیر حراست لوگ جعلی مقابلوں میں نشانہ نہیں بنائے جائیں گے،
بلوچ جبری لاپتہ افراد کے فیملیز کو سالوں سے جبری لاپتہ اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے شدید خدشات لاحق ہیں، زیارت سانحے کے بعد یہ خدشات اور خطرات نے شدت اختیار کی ہوئی ہے اور فیملیز بیچینی اپنے گھر نہیں بیٹھ سکتے-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.