بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا کہ غازی یونیورسٹی کی جانب سے بے دخل بلوچ طالبعلموں کی بحالی تنظیمی کارکنان کی بے لوث جدوجہد کا ثمر ہے۔ ڈیرہ غازیخان کی واحد درسگاہ غازی یونیورسٹی کی جانب سے ایک اسٹڈی سرکل کی پاداش میں آٹھ بلوچ طالبعلموں سمیت ایک پروفیسر کو یونیورسٹی سے بے دخل کیا گیا تھا جس کے خلاف روز اول سے تنظیم نے دوسرے سیاسی و سماجی حلقوں کے ساتھ مل کر بھرپور جدوجہد کی اور بالآخر تمام طلبا ء و طالبات کو یونیورسٹی کی جانب سے بحال کر دیا گیا۔
مرکزی ترجمان نے کہا کہ تنظیم کی جانب سے 27 اپریل کو” تعلیم” کے عنوان پر ایک اسٹڈی سرکل کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں بیس سے زائد طلبا ء و طالبات حصہ لے رہے تھے کہ اچانک سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر علی تارڈ نے اسٹڈی سرکل پر دھاوا بولا اور سرکل میں موجود طالبات کی فوٹوز اور وڈیوز بنانے کی کوشش کی، نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے گئے، طالبات کے موبائل فون کھینچے گئے۔ فیمیل طالبات کے ساتھ نامناسب رویے کے خلاف تنظیمی کارکنان کی جانب سے یونیورسٹی مین گیٹ پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ اگلے روز یونیورسٹی کی جانب سے نظم و ضبط کی پامالی کے نام پر آٹھ طالبعلموں کو یونیورسٹی کی جانب سے فارغ کیا گیا جس میں سے زونل و یونٹ عہدیداران شامل تھے۔
تنظیم کی جانب سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اس طرح کے اسٹڈی سرکلز کا مختلف موضوعات پر انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسٹڈی سرکلز کا مقصد طالبعلموں کو اپنے کورس کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل اور تاریخ پر آگاہی دینا ہوتا ہے تاکہ یہی طالبعلم باشعور ہو کر اور ایک احساس لے کر اپنے علاقوں میں واپس جائیں اور وہاں اجتماعی ترقی کےلیے کوششیں کریں۔
اس سے پہلے بھی تنظیم کی جانب سے ڈیرہ غازیخان میں مختلف تعلیمی و ادبی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے جس میں کیرئیر کونسلنگ سیمینارز، ایڈمشن مہم، کتاب اسٹالز اور تونسہ ایجوکیشنل فیسٹیول نمایاں ہیں۔ تنظیم ڈیرہ غازیخان کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طالبعلموں کے ہاتھ سے ڈنڈہ کلچر چھین کر انہیں کتاب تھما رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلباء کے حقوق کےلیے تنظیم کی جانب سے ہر وقت آواز اٹھایا گیا جس میں انلائن کلاسز سے لے کر فیسوں کے مسئلے کو اجاگر کرنے تک شامل ہیں۔ تنظیم کی جانب سے غازی یونیورسٹی میں بلوچی ڈیپارٹمنٹ کےلیے جدوجہد نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ قبائلی علاقوں کے تعلیمی صورتحال کو مد نظر رکھ کر بساک کی جانب سے 2018 میں غازی میڈیکل کالج کے سامنے 34 دن کا طویل دھرنا دیا گیق جس کے بعد ان علاقوں کے طالبعلموں کےلیے 5 فیصد نشستیں منظور ہوئیں تھیں۔ ٹرائیبل ایریا راجن پور میں فیک ڈومیسائل کے خلاف بساک کی جانب سے باقائدہ آگاہی مہم چلائی گئی۔ بلوچ لٹریس کمپین کے ذریعے ڈیرہ غازیخان کے دیہی و قبائلی علاقوں کے اسکولوں کا ڈیٹا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کو جاگر کیا جارہا ہے۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ تنظیمی کارکناں تعلیمی اداروں میں شعوری سرگرمیوں، ڈسکشن ماحول، لایبریری کلچر کے پروان کےلیے کوشاں ہیں۔ اور یہ اسٹڈی سرکل بھی اسی تسلسل میں منعقد کی جارہی تھی۔ لیکن بد قسمتی سے غازی یونیورسٹی کی جانب سے اسٹڈی سرکل پر دھاوا بول کر طالبات کو ہراساں کرنے کی کوشس مثبت سرگرمیوں پر قدغن لگانے کے مترادف تھیں۔
یونیورسٹی کی جانب سے بے دخل آٹھ بلوچ طالبعلموں نے اس آمرانہ فیصلے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور تعلیم پر قدغنوں کے خلاف ایک مھکم آواز بن گئے۔ تنظیمی ذمہ داران اور کارکنان کی انتھک محنت ، لازوال جدوجہد اور ڈیرہ غازیخان کی شدید گرمی میں سڑکوں پر تعلیم کےلیے بے لوث کاوشوں کے سبب آنتظامیہ نے بالآخر طلبا کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیے اور تمام طالبعلموں کو بحال کردیا گیا۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس بحالی تحریک غازی یونیورسٹی اور ڈیرہ غازیخان کے دیگر طلبا ء و طالبات کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی تھی جن طالبعلموں نے مشکل وقت میں ان طالبعلموں کا ساتھ دیا ان کے مشکور ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیرہ غازیخان کے عوام ؛ ڈسٹرک انتظامیہ ؛ سیاسی جماعتوں جن میں بلوچ راج؛ تونسہ شریف کے بار کونسل ؛ بلوچ ڈاکٹرز فورم ڈیرہ غازیخان اور ان تمام کرداروں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس بحالی تحریک میں طالبعلموں کا ساتھ دیا اور ہر مشکل وقت میں ساتھ کھڑے رہے۔
مرکزی ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ تنظیم کی جانب سے پروفیسر رفیق قیصرانی کی بحالی اور ہراسمنٹ کے خلاف جدوجہد جاری رکھا جائے گا۔ غازی یونیورسٹی سمیت ڈیرہ غازیخان کے تعلیمی اداروں میں شعوری سرگرمیوں کے فروغ کےلیے اپنا جدوجہد جاری رکھیں گے اور طلباء کی حقوق کی جنگ لڑتے رہیں گے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.