کوئٹہ شہر سے جبری لاپتہ کیے گئے شہزاد بلوچ کے اہل خانہ کی کوئٹہ پریس کلب میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ماما قدیر کے ہمراہ پریس کانفرنس- شہزاد بلوچ کو اپنے دوستوں کے ہمراہ 4 جون 2022 کو جبری لاپتہ کیا گیا- متعلقہ تھانوں میں پولیس شہزاد بلوچ کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج نہیں کر رہی- اگر شہزاد بلوچ کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچا تو تمام تر ذمہ داری ریاست اور موجودہ حکمرانوں پر عائد ہوگی- اہل خانہ
پریس کانفرنس کا متن:
معزز صحافی حضرات،
جیسا کہ آپ تمام معزز صحافی حضرات کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مملکت خداداد پاکستان خصوصاً بلوچستان میں آئے روز بلوچستان کے نوجوانوں طالب علموں اور ڈگری ہولڈرز کو ریاستی اداروں بلخصوص ریاستی ایجنسیوں کی جانب سے ماورائے عدالت جبری گمشدہ کیا جا رہا ہے جو کہ قانون و آئین کے منافی عمل ہے۔ اب جبکہ وفاق میں پی ڈی ایم کی نئی حکومت بنی ہے موجودہ دور حکومت میں بھی بلوچستان کے نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ختم ہونے کے بجائے مزید شدت اختیار کر چکا ہے- اس اہم ایشو پر حکومت کی جانب سے کوئی واضع پالیسی سامنے نہیں آئی ہے جو کہ مایوس کن ہے اور اسکی وجہ سے بلوچستان کے عوام میں مزید خوف و ہراس اور عدم تحفظ کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جبری گمشدہ بنائے گئے نوجوانوں کے والدین اور لواحقین کے گھروں میں ماتم مچی ہوئی ہے۔ لیکن حکومت اور ریاست ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔
اسی تناظر میں ہمارا بھائی شہزاد بلوچ ولد خدا بخش سکنہ قلات گیاوان کا رہائشی جو پولی ٹیکینکل کالج سے حال میں فارغ ڈگری ہولڈر طالب علم ہے وہ 4 جون 2022 کو اپنے گھر قلات سے اپنے ضروری کاغذات کالج سے نکالنے کے سلسلے میں کوئٹہ آیا تھا۔ اس دوران 4 جون 2022 کے دوران کوئٹہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ عتیق بلوچ ولد بیبرگ بلوچ سکنہ لجے خاران، احمد بلوچ ولد بہادر خان سکنہ نال خضدار سمیت پولی ٹیکینکل کالج موسی ٰ کالونی کے قریب سے لاپتہ ہوگیا ہے۔
شہزاد بلوچ اور اسکے دوستوں کی کافی تلاش کے بعد ہم نے اس علاقہ کے تھانے میں انکی گمشدگی کے بارے میں ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی- متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او صعبان کوری آج تک ایف آئی آر درج کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں- تا حال ایف آئی آر درج نہیں ہوا جو لواحقین کے ساتھ ظلم و نا انصافی کے مترادف عمل ہے۔ تھانہ اور عدالت عام شہری کو تحفظ دینے کے لئے بنے ہیں۔ ہمارے گمشدہ افراد کے حوالے سے قانونی اداروں کی عدم دلچسپی کی بنیاد پر ہم لواحقین کا شک سیکورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف جاتا ہے اور ماضی میں بھی بلوچستان سے جتنے بھی نوجوان لاپتہ ہوئے انکی بازیابی سیکورٹی اداروں کے ہاں سے ہوئی ہے اور ہم واضح کرتے چلیں کہ ہمارے خاندانوں کے آپس میں بلکہ باہر کسی اور کے ساتھ کوئی بھی جھگڑا نہیں ہے۔
اس وقت شہزاد بلوچ کے بوڑھے والدین خاص کر شہزاد کی ماں جو ہارٹ اور شوگر کی مریضہ ہیں جب سے بیٹے کی لاپتہ ہونے کی خبر سنی ہے انکی صحت مزید خراب ہو گئی ہے۔ اور ساتھ میں پورا خاندان سخت پریشان ہے بلکہ ایک عذاب قبر کی زندگی گزار نے پر مجبور ہے- ہم یہ واضع کرنا چاہتے ہیں کہ شہزاد بلوچ کو اگر فوری بازیاب نہیں کیا گیا تو اس دوران شہزاد ااور اسکے والدین کو کچھ بھی جسمانی طور پر نقصان ہوا تو اسکی تمام تر ذمہ داری ریاست اور موجودہ حکمرانوں پرعائد ہوگی-
چونکہ قانونی تقاضہ یہ ہے کہ اگر کسی نے کتنا بھی بڑا جرم کیا ہو ریاست یا ریاستی اداروں پولیس کو مطلوب ہو اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر اگر عدالت جتنی بھی سزا مقرر کرے اس میں کوئی حرج نہیں ہے- لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون کی دھجیاں اڑا کر اپنی من مانی اور غیرقانونی ہتکھنڈے استعمال کیے جاتے ہیں-
معزز صحافی حضرات آپ میڈیا چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ہماری آواز کو انسانی حقوق کے تمام تنظیموں سول سوسائٹی اور دیگر انسان دوست نتظیموں تک پہنچائے۔ اس کے ساتھ سیکورٹی اداروں مختلف ایجنسیوں اور عدالت حالیہ پولیس سب سے درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ شہزاد بلوچ کو بازیاب کرکے عدالت میں پیش کریں۔ تاکہ شہزاد کے والدین لواحقین سکھ کا سانس لے سکیں بصورت دیگر شہزاد بلوچ کی بازیابی کے لئے ہر قسم کے قانونی چارو جوئی اور احتجاج کرنے سے گریز نہیں کریں گے-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.