:کوئٹہ:
آواران سول سوسائٹی کے مطابق ضلع آواران میں محکمہ صحت کی سہولیات کا فقدان ہے، ضلع کے تین تحصیلوں میں سے ایک تحصیل مشکے جو تین یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ جن میں صرف گجر شہر میں ایک بڑا ہسپتال قائم ہے کہ ان کے ساتھ باقی یونین کونسلوں کے پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹروں میں درد یا کسی اور بیماری کا انجکشن تک دستیاب نہیں ہے، اب یہ جان لیوا ڈرگز کے اڈے بن چکے ہیں۔
حکومت بلوچستان ایکشن لے,ہم اس محرومیت و ناسور کا زمہ دار موجودہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز اور پارلیمانی لوگوں کو ٹھہراتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ضلع آواران کو بنیادی طبی امداد کے سہولتوں سے محروم کر چکے ہیں۔سب تحصیلوں کے ساتھ مشکے میں بھی نیادی سہولتوں کے فقدان اور ڈرگز کے خلاف لوگ سراپا احتجاج پر ہیں لیکن نام نہاد نمائندے خرگوش کی نیند سے جاگتے نہیں ہیں۔ انہوں نے عوام کو جھوٹے وعدوں کے سہارے دے کر ووٹ حاصل کرلی اور عہدوں پر فائز ہوکر یہی غریب عوام کے خون و پسینے سے کاروبار کرنے لگے ہیں۔
ہسپتالوں میں ڈرگز سے مبتلا بلوچ فرزندان نشے میں دھت مر رہے ہیں ۔ گجر ہسپتال ایک اڈا بن چکا ہے، پہلے اس میں ڈرگز فروخت ہو رہے تھے، اب اس میں مبتلا اشخاص رہ رہے ہیں۔
اس ہستپال کے تین ڈاکٹرز موجود ہیں، زلزلے کے بعد ہسپتال کا دیوار تعمیر نہ ہوسکا اور ادویات جو پہلے کبھی دستیاب تھے اب ان کے نام و نشانات تک باقی نہ رہے۔مزید واضع کرتا چلیں کہ مختلف جگہوں میں پہلے ہستپالوں کی صرف عمارتیں موجود ہیں جس میں منگلی، پروار، نوکجو اور علاقے ہیں وہاں کے نزدیک پہاڑی و دیہی علاقوں میں نئے ہسپتالوں کے تعمیراتی منصوبے بھی طے پائے تھے جس طرح گورجک اور مشکے لاکھی میں بھی ہسپتالوں کے عمارتیں تعمیر ہو رہے تھے بعد ہستپالوں کے تعمیراتی کام بیچ میں رکھ گئے، ان کے ٹھیکداران خود پارلیمانی لوگ ہی تھے کہ جنہوں نے ہسپتالوں کے پیسے ہڑپ کئے اور ان سب کے پیسے خود پر خرچ کرکے وہاں نہ ہسپتال قائم کر دیئے اور نہ ہی پہلے موجود ہسپتالوں میں ادوائیاں لاسکے بلکہ مزید لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کردیا، عوام کو جھوٹے دلاسے دے دیئے کہ ہر علاقے میں ہسپتال قائم کریں گے، وہاں بنیادی سہولتیں فراہم ہوں گے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.