بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں ریاست نے بونے سرداروں اور ڈیتھ سکواڈز کے ذریعے کشت و خون کے بازار کو گرم رکھا ہے۔بلوچ قوم کے وسائل پہ قبضہ گیری ہو، جوانوں، بچوں یا عورتوں کی جبری گمشدگی یا انہیں قتل کر کے لاشیں پھینکنا ہو ریاست نے مختلف سطحوں پہ اپنی معاونت کے لئے ڈیتھ سکواڈز تشکیل دی ہیں اور انہیں منشیات و اصلحہ کی سمگلنگ، جینوئن سیاسی کارکنوں کو ہراساں و ٹارچر کرنے اور اغوا کاری کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور بارکھان واقعہ اس بات کے کھلا ثبوت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی میں بھی بلوچستان میں نجی قید خانے قائم کر کے بلوچستان کو غلامانہ سماج میں رکھا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں بارکھان کے رہائشی ایک خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انہیں قرآن پاک پہ قسم اٹھاتے دہائیاں دیتے سنا گیا کہ وہ اپنے ایک جوان سال بیٹی اور دو بیٹوں سمیت عبدالرحمن کھیتران کے نجی جیل میں سالوں سے قید ہیں جہاں انہیں طرح طرح کے اذیتیں دی جارہی ہیں۔ اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی آئین و قانون کے رکھوالے اداروں کو حرکت میں آنا چاہیے تھا مگر نام نہاد ادارے مقامی سردار کو تحفظ دیتے ہوئے دکھائی دینے لگے اور جب مقتولین کے ورثا لاشوں سمیت دارالحکومت احتجاج کرنے کے غرض سے آرہے تھے تو بجائے ان کی داد رسی کرنے کے انہیں ہراساں کیا جاتا رہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچ سماج میں جنگی حالات میں بھی عورت کے خصوصی حقوق ہوتے ہیں لیکن مذکورہ واقعہ نے بلوچ روایات و بنیادی انسانی حقوق کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اس انسانیت سوز واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہے کہ نامزد ملزمان کے خلاف انکوائری کرکے اسے ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ ترجمان نے بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ منظم سازش کے تحت بلوچستان میں خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں جبکہ دوسری جانب خواتین کو اغواء کر کے بنیادی انسانی حقوق پیروں تلے روندے جارہے ہیں تو اس کے لیے بلوچ بھی منظم ہوکر ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ترجمان نے سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ مظالم کا ثانی بلوچ تاریخ میں نہیں ملتی اور ان مظالم کا مقابلہ مشترکہ جدوجہد سے ممکن ہے۔ حالات کا ادراک رکھتے ہوئے بلوچستان کے عوام کی تحفظ میں عملی کردار ادا کریں۔
ترجمان نے کہا کہ ریاست نے اپنی مفادات کی دفاع اور مظالم کو دوام بخشنے کے لئے انگریزوں کی تشکیل کردہ سرداری نظام کو مظبوط کرکے بلوچ عوام کے مشکلات میں اضافہ کیا۔ جب کسی سردار نے ریاستی مظالم کے خلاف بغاوت کا الم بلند کیا تو وہ غداری کا لقب پاکر زندانوں کی نظر کردئیے گئے۔ جب سردار عطاء خان مینگل، نواب خیر بخش مری و ان کے رفقاء نے ریاستی مظالم کو چیلنج کیا تو مختلف سازشوں کے زریعے ان کو قید و بند و جلا وطنی کے مشکلات برداشت کرنے پڑے جبکہ سردار عطاء اللہ مینگل کو ان کی سیاسی موقف سے پیچھے ہٹانے کے لیے اس کے جوان فرزند اسداللہ مینگل کو زخمی حالت میں اغوا کیا گیا اور تاوقت اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں دی گئی۔ نواب بگٹی کی شہادت اور اسد مینگل کی جبری گمشدگی یا قتل اس بات کی دلیل ہے کہ بلوچستان میں ریاستی مفادات کے خلاف اگر کوئی ہرزہ سرائی کرے گا تو وہ غدار اور ریاست دشمن تصور ہوگا چاہے وہ کوئی سردار ہی کیوں نہ ہو۔ بلوچ رسم و رواج میں پہلے بھی قبائلی نظام رائج تھا۔
ترجمان نے آخر میں بلوچستان نیشنل پارٹی و دیگر قوم پرست قوتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سرداری نظام کے خلاف راجی رہشون سردار عطاء اللہ خان مینگل کی پیش کردہ قرارداد دوبارہ اسمبلی میں پیش کرکے ریاستی تشکیل و تخلیق کردہ سرداری نظام جس کی وجہ سے بارکھان میں معصوم خواتین و بچوں کو قتل کیا گیا اس کے مکمل خاتمے کے لیے آواز بلند کرے تاکہ ریاستی مفادات کے چوکیدار جو قبائلی سربراہ کے روپ میں چھپے بھیڑیے ہیں ان کو لگام دے کر مظلوموں پر جبر کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ ریاست اپنی پالیسیوں کو درست ثابت کرنے کےلئے ہمیشہ قبائلی نظام کو وجہ بتا کر جبر و تشدد کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن بلوچ قبائلی رسم و رواج مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ یہ نظام ہے جو پہلے یہاں انگریز اور اب موجودہ سرکار کی بلوچ دشمن پالیسیوں کو دوام بخش رہا ہے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.