:کوئٹہ
وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ ماما قدیر بلوچ کیمپ میں بیٹھے رہے جبکہ اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او پجار کے چیئرمین زبیر بلوچ، طارق بلوچ اور دیگر شامل تھے ۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ زرینہ مری سمیت سینکڑوں خواتین ریاستی ٹارچر سیل میں اذیتیں سہ رہے ہیں جو روز مرتے اور زندہ ہوتے ہیں، سینکڑوں جبری لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئی ہیں، پاکستان میں شہریوں کو اٹھا کر غائب کردینے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، بلوچستان میں یہ شرح دوسرے صوبوں کی نسبت کافی زیادہ ہے، روزانہ اوسطاً دو سے تین لوگ جبری طور پر اٹھا کر لاپتہ کر دیے جاتے ہیں۔
پولیس ان واقعات کی رپورٹنگ کرنے اور ایف آئی آر کرنے سے کتراتی ہے، جب لاپتہ افراد کے لواحقین عدالتوں یا کمیشن کا رخ کرتے ہیں تو وہاں بھی انہیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے، اور وہ لا علمی کا مظاہرہ کرتے ہیں،آلہ کہ سب کو معلوم ہے کہ ان سب کے پیچھے ایجنسیاں ملوث ہیں ۔ حالیہ دنوں ایک طالب علم حفیظ بلوچ کو انکے طلباء کے سامنے انہی لوگوں نے جبری اٹھا کر لاپتہ کر دیا اور اب اس پہ جھوٹے الزامات کی ایف آئی آر کاٹ کر اسے پولیس کے حوالے کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتیں بلوچوں کو انصاف دلانے میں مکمل ناکام رہے ہیں، ریاستی ٹارچر سیل سے آزاد کچھ خوش قسمت لوگوں نے باہر آ کر تشدد کی دل دہلانے والے واقعات کا ذکر کیا ہے اور وہ عالمی اداروں اور ان کے ایونٹس پہ بھی پیش ہو چکے ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان شواہد کی بنیاد پر پاکستانی ریاست اور انکے اداروں سے عالمی انصاف کے ادارے جواب طلبی کریں ۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.