بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ اوتھل زون کی جانب سے پروگرام بعنوان ” انقلابِ چائنہ ” منعقد ہوا جس کے اسپیکر سید رضا بلوچ تھے۔ پروگرام کے مہمانِ خاص بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل جاوید بلوچ تھے۔ مرکزی انفارمیشن سیکریٹری جی آر بلوچ، سینٹرل کمیٹی ممبر امیر جیئند، کراچی زونل صدر جاوید بلوچ اور نائب صدر عامر جی آر نے بطورِ اعزازی مہمان شرکت کی۔
سنگت سید رضاء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1949ءِ میں ماؤ کی قیادت میں برپا ہونے والا چینی انقلاب، انسانی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ 1917ء کے انقلابِ روس کے بعد، یہ پہلا موقع تھا جب صدیوں سے پسے ہوئے کروڑوں عوام نے نہ صرف نیم جاگیر دارانہ رشتوں کے جبر اور سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات حاصل کی بلکہ سامراجی طوق کو بھی اتار پھینکا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں محنت کشوں اور کسانوں نے ناقابل تصور جرات اور بہادری کی مثالیں قائم کرتے ہوئے پسماندگی کی انتہا گہرائیوں سے نکل کر ایک متحد اور جدید’’عوامی جمہوریہ چین“ کی بنیاد رکھی۔
انہوں نے سوویت یونین کی سٹالنسٹ بیوروکریسی کی تمام تر غداریوں اور ماؤ کے نظریاتی تذبذب اور کمزوریوں کے باوجود، چین سے سرمایہ داری کا خاتمہ اور ایک مسخ شدہ مزدور ریاست کا قیام، ٹراٹسکی کے نظریہ انقلاب مسلسل کی درستگی کا بھی ثبوت تھا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی فتح نے مغربی اور امریکی سامراج کو لرزا کر رکھ دیا اور دنیا بھر کے محنت کشوں اور بائیں بازو کے کارکنان کو ایک نئی شکتی بخشی۔ چین اور سوویت یونین پر مبنی ایک متحد سوشلسٹ بلاک ناصرف سامراجی حملوں کا بخوبی مقابلہ کرسکتا تھا بلکہ یہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جانب بھی ایک اہم قدم ثابت ہوتا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا بلکہ سوویت اور چینی بیوروکریسی کے اپنے اپنے تنگ نظر قومی مفادات کے تحفظ کی تگ و دو عالمی مزدور تحریک کو مضبوط کرنے کی بجائے اس میں پھوٹ کا باعث بنی اور پوری دنیا میں کمیونسٹ پارٹیاں بیجنگ نواز اور ماسکو نواز دھڑوں میں بٹ گئیں
سنگت نے مزید کہا کہ نظریاتی و سیاسی جوہر میں ایک ہونے کے باوجود سٹالنزم اور ماؤازم دنیا بھر کی مزدور تحریکوں میں پھوٹ اور کمزوری کا باعث بنے۔ ماؤازم اور اس سے نکلنے والے مسلح جدوجہد کے غیر سائنسی طریقہ کار نے بعد ازاں برپا ہونے والے کئی نوآبادیاتی انقلابات پر اپنی چھاپ چھوڑی۔ مگر سوویت یونین کے انہدام اور چین کے سرمایہ داری کی جانب لانگ مارچ اور ایک مسخ شدہ مزدور ریاست سے سامراجی قوت بننے تک کے سفر نے ان دونوں رجحانات کے دیوالیہ پن کو آشکار کردیا ہے اور یہ اپنے منطقی انجام یعنی تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود چینی انقلاب خطے کے محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کی ترقی اور بڑھوتری کے حوالے سے ایک عظیم جست تھی جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد چین کو سامراجی چنگل میں جکڑی ایک نیم جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ ریاست سے ایک جدید اور ترقی یافتہ سماج میں تبدیل کردیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماؤ کے لونگ مارچ نے ایک نیا ریکارڈ قئم کیا جس میں اُس کے تنظیم کے ستر ہزار لوگوں میں سے صرف دس ہزار لوگ بچے جنہوں نے دس ہزار کلو میٹر کا فاصلہ پورے ایک سال میں طے کیا جس میں اُس کے پارٹی کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور شدید جانی و مالی نقصان کا سامنا کیا۔ مگر وقت کے ساتھ ماؤ نے اپنے کمیونسٹ پارٹی کو منظم بنا کر گوریلا وار کا رستہ اختیار کرکے نیشنلسٹ پارٹی کو ہرا کر ایک بہترین نظام قائم کیا جس میں سوویت یونیں کا بھی ایک بہت بڑا کردار رہا۔
آخر میں دوستوں نے کئی سوالات پوچھے جن کا سنگت شاید رضاءِ نے تسلی بخش جوابات دیئے اور اسٹڈی سرکل کا اختتام کیا گیا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.