کراچی:
ریفرنس کا آغاز اکبر بارکزئی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نعمت اللہ گچکی نے کہا کہ واجہ بارکزئی ایک اعلی پائے کے دانشور اور شاعر تھے. جنھوں نے اپنی تمام عمر بلوچی ادب اور سیاست کے خدمت میں گزاری وہ آخری عمر تک بلوچ اور بلوچستان کے ساتھ جڑے رہے۔
ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرحوم کے دوست عبدالرحیم ظفر نے کہا کہ مرحوم اکبر اپنے اندر ایک اکیڈیمی اور ادارہ تھا جس کے ساتھ ہم نے رہ کر بہت سیکھا ہے دوران جلا وطنی بارکزئی صاحب ہماری رہنمائی اور تربیت کرتے رہے جس کے علم اور رہنمائی کی وجہ سے اج اس مقام پر پہنچے ہیں۔ عبدالرحیم ظفر نے تجویز ہیش کی کہ اکبر بارکزئی کے علمی اور نظریاتی کاموں کو محفوظ رکھنے اور ان کے کتابوں کے مسودات کو چھپانے کےلیے ان کے نام کا ایک ادارہ لیاری میں قائم کیا جائے جو مرحوم سمیت دیگر بلوچ لکھاریوں کے علمی ادبی کاموں کو محفوظ رکھ سکے۔
اس کے علاوہ اصغر علی ازگ نے ریفرنس سےمخاطب ہوکہ کہا کہ اکبر بارکزئی ، بیگ محمد بیگل اور یوسف نسکندی وہ نام تھے جن کو پڑھ کر سن کر ان سے رہنمائی حاصل کرکے ہم نے بلوچی لکھنا اور پڑھنا سیکھا ہے یہی وہ نام ہیں جن کے قومی کرادر اور شراکت سے لیاری جیسے علاقے میں بلوچی ادب اور زبان کو فروغ ملا ہے ۔ علی بخش دشتیاری نے کہا کہ اکبر بارکزئی وہ نام ہے جن کے کتاب روچا کے کشت کنت کے بعد ان کو شعر و شاعری لکھنے کا شوق پیدا ہوا اپ جیسے ہستی برسوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
رمضان بامری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واجہ اکبر بارکزئی ہمارے استادوں میں سے ہیں ان کی علمی بصیرت اور فکری بالیدگی سے ہم ہر وقت سیکھتے اور حوصلہ لیتے رہے ۔حسن علی حیال شبیر ارمان لطیف بلوچ , نیشنل پارٹی کے رمضان میمن اور دیگر رہنماؤں نے مرحوم اکبر بارکزئی کے علمی ادبی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ۔ پروگرام کے نظامت کے فرائض زرخان بلوچ نے انجام دیئے ۔ آخر میں بلوچ اتحاد کے صدر عابد بروئی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.