کوئٹہ:
جبری گمشدگیوں کے عالمی دن کے موقع پر، پاکستان کمیشن برائے اِنسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اِس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نہ تو متاثرین کا سراغ لگانے میں کوئی پیش رفت ہو سکی اور نہ ہی مجرموں کا محاسبہ ہو سکا ہے۔ سول سوسائٹی اور متاثرین کے اہلِ خانہ نے کئی بار مطالبہ کیا کہ جبری گمشدگیوں پر قانون سازی کی جائے مگر ریاست ایسا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اگلی منتخب حکومت اگر انصاف اور جوابدہی کے اصولوں کی پاسداری میں سنجیدہ ہے تو وہ اِس معاملے میں مزید ٹال مٹول سے کام لینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
اسلام آباد میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، ایچ آر سی پی کے کونسل رُکن اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہاہے کہ جولائی 2019 میں جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ایک خصوصی سیل قائم ہونے کے باوجود، جبری گمشدگیوں کے خاتمے پر کوئی پیش رفت نہيں ہوسکی۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ کابینہ کی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی، پارلیمانی کمیٹیوں اور عدالتِ عالیہ پشاور نے متاثرین کی رہائی اور بازیابی کے لیے کئی مطالبے کیے مگر اُن کا کچھ اثر نہیں پڑا۔ اُنہوں نے شفافیت اور جوابدہی کی ضرورت پر زور دیا اور حکام سے پُرزور اپیل کی کہ غیر قانونی حراستی مراکز بند کیے جائیں جہاں کئی جبری گمشدہ افراد کو مبینہ طور پر رکھا جاتا ہے۔ بابر صاحب نے یہ بھی کہا کہ جبری گمشدگیوں کے بل پر سیاسی بحث و تکرار اور پارلیمانی ایجنڈے سے اِس کا مسلسل اخراج ظاہر کرتا ہے کہ ریاست اِس معاملے پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
لاہور میں ایک اجلاس کے دوران، ایچ آر سی پی کی چئیرپرسن حنا جیلانی نے زور دے کر کہا کہ ِاس جرم کی تعریف اور اس کے لیے سزا کا تعین عالمی اصولوں کو مدِنظر رکھ کر کیا جائے۔ اُنہوں نے تشدد، ماورائے عدالت قتل اور خفیہ حراستوں کی مذمت کی اور ایسے مستحکم قانونی ڈھانچے کی ضرورت پر زور دیا جو شہری آزادیوں کو تحفظ دے سکے۔ محترمہ جیلانی نے جبری گمشدگیوں پر قائم انکوائری کمیشن کی مایوس کن کارکردگی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُن لوگوں کا بھی محاسبہ کیا جائے جو ایسی خلاف ورزیوں کا حکم یا اجازت دیتے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ذمہ دار عناصر کی طرف سے کیے گئے ”غیرجانبداری’ کے دعوے ‘بے نقاب ہو گئے ہیں’۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.