چیک میں پیدا ہونے والے ناول نگار نے فلسفیانہ قیاس آرائیوں کو سیاسی تنقید اور شہوانی، شہوت انگیز جذبے کے ساتھ ملایا۔
چیک میں پیدا ہونے والے مصنف جنہوں نے کمیونسٹ حکمرانی کے تحت وسطی یورپ کے ثقافتی اور سیاسی جبر کی طرف توجہ مبذول کروائی، کنڈیرا کے ادبی موضوعات میں محبت اور جلاوطنی سے لے کر سیاست اور ذاتی تجربات تک سب کچھ شامل ہے
کنڈیرا ماضی میں چیکوسلوواکیہ کے شہری تھے مگر 1989ء میں آنے والے مخملیں انقلاب کے نتیجے میں جب کمیونسٹوں کو اقتدار سے باہر کر دیا گیا، تو کنڈیرا کا وطن تقسیم ہو کر اپنے لیے ایک نیا نام اپنا چکا تھا، چیک جمہوریہ۔ مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی کیونکہ کنڈیرا اپنے لیے جلاوطنی کی زندگی میں ایک نیا آغاز کر چکے تھے۔
ایک نئی زندگی، ایک نیا وطن اور ایک نئی شناخت، جس کا محور فرانس کے ارالحکومت پیرس میں ان کا فلیٹ تھا جہاں سے انہوں نے اپنا ادبی تخلیقی سفر جاری رکھا اور اس عرصے میں کنڈیرا نے چیک زبان کے بجائے فرانسیسی میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔
فرانس میں جلاوطنی کی زندگی شروع کرنے کے بعد جب یورپ میں مشرق اور مغرب کو تقسیم کرنے والا آہنی پردہ ختم بھی ہو گیا، تو بھی وہ شاذ و نادر ہی چیک جمہوریہ گئے تھے۔
کنڈیرا کے 1984ء میں شائع ہونے والے ناول ‘وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا ان کی بہت سی دیگر ادبی تخلیقات اور تصنیفات کی طرح دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور 1988ء میں اس پر ایک بہت مشہور فلم بھی بنائی گئی تھی، مگر خود چیک جمہوریہ میں یہ ناول 2006ء تک کبھی شائع نہیں ہوا تھا، حالانکہ چیک زبان میں یہ ناول دستیاب تو 1985ء سے تھا۔
کنڈیرا کا انتقال
چیک نژاد فرانسیسی ادیب میلان کنڈیرا کی موت کی تصدیق موجودہ چیک جمہوریہ کے شہر اور ان کی جائے پیدائش برنو میں میلان کنڈیر لائبریری کی طرف سے بھی کر دی گئی۔ اس لائبریری کی ترجمان آنا مرازوا نے بدھ 12 جولائی کے روز بتایا، ”میں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اعلان کرتی ہوں کہ میلان کنڈیرا کل منگل 11 جولائی کے دن طویل علالت کے بعد پیرس میں اپنے گھر پر انتقال کر گئے۔‘‘
بین الاقوامی سطح پر ایک ناول نگار، شاعر، اور مضمون نگار کے طور پر شہرت حاصل کرنے والے کنڈیرا یکم اپریل 1929ء کو موجودہ چیک جمہوریہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر برنو میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے تعلیم پراگ میں حاصل کی تھی۔
انیس سو پچھتر میں اس دور کی کمیونسٹ ریاست چیکوسلوواکیہ سے رخصت ہو کر فرانس میں آباد ہو جانے والے کنڈیرا نے اپنی زندگی کے آخری 48 برس فرانس ہی میں گزارے، جو ان کی عمر کا تقریبا نصف حصہ بنتا ہے۔
کنڈیرا نے اپنے ادبی سفر میں جو شہرت حاصل کی، اس کا آغاز ‘دا جوک‘ یا ‘مذاق‘ نامی اس ناول سے ہوا تھا، جو 1967ء میں شائع ہوا تھا اور جس کا مرکزی کردار ایک ایسا نوجوان ہے، جس کو ایک معصوم سا مذاق کرنے پر کمیونسٹ پارٹی اور یونیورسٹی دونوں سے نکال دیا جاتا ہے۔
کنڈیرا کے بارے میں سرکردہ بین الاقوامی ادبی نقاد یہ کہتے رہے تھے کہ وہ ادب کے نوبل انعام کے حق دار تھے اور انہیں یہ اعزاز دیا جانا چاہیے تھا، تاہم انہیں یہ اعزاز حاصل نہ ہو سکا۔
خیال رہے میلان کنڈیرا کو ایک بار ان کی چیک شہریت سے محروم بھی کر دیا گیا تھا، 1981ء میں فرانسیسی شہریت اختیار کر لی تھی۔ 2019ء میں انہیں ان کی چیک شہریت بھی لوٹا دی گئی تھی۔
بشکریہ: اے ایف پی،واشنگٹن پوسٹ، ڈی ڈبلیو اردو, نیویار ٹائم
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.