نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے حب میں بلوچ قوم پرست رہنما سردار عطاللہ خان مینگل کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں اے این پی کے لالا منان، لسبیلہ بار ایسوسی ایشن کے غلام رسول انگاریہ، صحافی شیر احمد انگاریہ، بی وائے سی کراچی کے عبدالوہاب بلوچ، واجہ حنیف دلمراد بلوچ اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی آرگنائزر شاہزیب بلوچ ایڈوکیٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ریفرنس میں اسٹیج سیکٹری کی زمہداری این ڈی پی کے مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر قندیل بلوچ سنبھال رہے تھے۔ ریفرنس کا باقائدہ آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اور بلوچ راجی سوت سے کیا گیا۔
این ڈی پی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر رشید کریم بلوچ نے ابتدائی تقریر کرتے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کیا۔ ریفرنس میں مقررین نے خطاب کرتے ہوئے سردار عطاللہ مینگل کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انکی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم پرست رہنماء سردار عطاءاللہ مینگل بلوچ نیشنلزم کی حوالے سےایک عظیم سیاسی لیڈر تھے، انکی سیاست ھمیشہ اپنی مظلوم قوم اور بلوچستان دھرتی کےلئِے تھی، سردار عطاءاللہ مینگل، سمیت دیگر سیاسی اکابرین جن میں نواب اکبرخان بگٹی، نواب خیربخش مری، باچاخان ولی خان ، ان سب کی جدوجہد بلوچ پشتون کےلئِے ایک درس کی حیثیت رکھتی ہیں ، انہوں نے ہمیشہ اصول کی بنیاد پر سیاست کی تھی۔ سردار عطاءاللہ خان مینگل ایک پُختہ سیاسی اور نظریاتی افکار کے مالک تھے، صدیوں تک ہم انکی جدوجہد کی خلا کو پُر نہیں کرسکتے۔ وہ ایک سیاسی استاد ، ایک سخت مؤقف اور اسکا گفتگو ئے انداز عملی بنیاد پر ہمیشہ اپنی دھرتی اور مظلوم قوم کےلئِے تھا۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ وڈھ کی سر زمین پر رسول بخش مینگل کے گھر میں پیدا ہونے والا عطاللہ مینگل نا صرف پورے بلوچستان، ایشیا بلکہ دنیا بھر میں عظیم رہنما کے طور پر جانا جائے گا۔ سردار عطاللہ مینگل کی سیاسی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سردار عطاللہ مینگل نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ون یونٹ کے دور سے کیا جس کا مقصد بنگال سمیت چھوٹی قوموں کو استحصای پالیسی کے زریعے بلڈوز کرنا تھا۔
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں چار شخصیات ایسے ہیں جنہیں کبھی بلایا نہیں جا سکتا اور جب بھی بلوچ اور بلوچستان کا ذکر ہوگا تو وہاں سردار عطاللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، نواب اکبر خان بگٹی اور نواب خیر بخش مری کا ذکر لازمی ہوگا آج اس ریفرنس کے زریعے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ان شخصیات کو ہمیشہ یاد کیا جائےگا۔ تاریخ بے رحم ہے نا طاقت سے نا پیسے سے تاریخ رقم ہوتا ہے اگر ہوتا تو آج ضیالحق، مشرف، اور لیاقت علی خان کا دن منایا جاتا مگر تاریخ میں اچھے الفاظ سے انکے بجائے ولی خان، باچا خان، عطاللہ مینگل، اکبر بگٹی اور خیر بخش کو یاد کیا جاتا ہے۔
مقررین نے کہا کہ 1973 کے آئین کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ بلوچستان کے جمہوری حکومت کا غیر آئینی خاتمہ کیا گیا۔ سردار عطاللہ مینگل کی سرپرستی میں اس جمہوری حکومت نے صرف دو سال میں یونیورسٹی آف بلوچستان، بولان میڈیکل کالج، بلوچستان بورڈ آف ایجوکیشن سمیت بے شمار انقلابی کام کئے مگر چونکہ استعماری قوتوں کو خوف تھا کہ حکومت کچھ سال مزید چلتا تو بلوچستان کی تقدیر بدل جائےگی اور انہیں بلوچ وسائل سے ہاتھ دھونا پڑھےگا۔ سردار عطاللہ مینگل اپنے فکر کے ساتھ کمیڈڈ رہے، بے شمار ظلم، جبر، بیٹے اسد بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد قتل نے بھی انہیں اپنے مقصد سے ہٹنے پر مجبور نا کیا۔ مقررین نے کہا کہ جب کچھ سازشی عناصروں نے زبان کے نام پر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تو سردار عطاللہ مینگل نے انکا مقابلہ کر کے انہیں پسپا کر کے انہیں پیغام دیا کہ بلوچ کو زبان کے نام پر کبھی تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ سردار عطاللہ مینگل کسی بھی ملکی میڈیا پر یقین نہیں رکھتے، پارلیمانی سیاست سے مایوس ہوکر خاموشی اختیار کئِے ہوئِے تھے، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اب سب کچھ بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں جنہیں منانا شاید میرے بس میں بھی نہیں ہے۔
مقررین نے کہا کہ تاریخ یا واقعات پر لکھی جاتی ہے یا پھر ان افراد کے کردار پر۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے ہمیں اس فکرے سے نکلنا ہوگا کیوں سردار عطاللہ مینگل، خیر بخش مری اور اکبر خان بگٹی کے فالورز تو پیدا ہو سکتے ہیں مگر وہ شخصیات دوبارہ جنم نہیں لے سکتے۔ سردار عطاللہ مینگل کی شخصیت پر مقررین نے کہا کہ وہ بہترین مقرر تھے جب اسٹیج پر ہوتے تو اپنے تقریر سے سب کو متاثر کرتے اور انکے انٹرویو کے الفاظ کو درس کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ہمیں سردار عطاللہ مینگل کے درسی الفاظ کو سمجھنا ہوگا جو وہ ہمارے لئے چھوڈ کر چلے گئے۔ اس جدوجہد کو پہنچانے اور سمجھنے کی ضرورت ہے جس سے ہمیں اپنی پہچان کا درس ملتا ہے اس زمین سے محبت کا درس ملتا ہے۔
مقرین نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت ریاست کا عکس ہوتی ہے بلوچ کی منزل دور ہے ہم اس منزل پر تب ہی پہنچ سکتے ہیں جب عطاللہ مینگل، اکبر خان بگٹی اور خیر بخش مری کے 50 سالہ جدوجہد کو نقش قدم بنا کر چلیں گے مگر بد قسمتی سے ہمارے پاس ان شخصیات کی بائیو گرافی نہیں جو ہمارا سب سے بڑا قومی اثاثہ ہیں۔ عطاللہ مینگل نے کہا تھا کہ جب میرا حق کوئی جیب میں رکھا تو اسکا جیب پھاڑ دونگا اور اگر کسی نے پیٹ میں رکھا تو اسکا پیٹ پھاڑ دونگا۔ آج بلوچ کا استحصال کیا جا رہا ہے جبری گمشدگی اپنے عروج پر ہے چند دن پہلے اردو بازار سے کتاب فروش کو اغوا کیا گیا جس کا مقصد قلمی جدوجہد کو تباہ کرنا ہے۔ آج ریکوڈک کے زریعے بلوچستان کے عوام کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے اور لینڈ ایکیوزیشن ایکٹ کے زریعے بلوچوں کے اہنی زمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے ان تمام مشکلات کا حل انہی شخصیات کی نقش قدم پر چک کر نکلتا ہے۔
مقررین نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے درمیان اختلافات کو ختم کرنا ہوگا وہ اختلافات جو ضد کی بنا پر ہوں انا کی بنا پر ہوں ذاتی مفاد کی بنیاد پر ہوں ان تمام اختلافات کو بلکل اسی طرح ختم کرنا ہوگا جس طرح بلوچ مقصد اور بلوچ کاز کے لئے کئی بار ان شخصیات نے اپنے اختلافات ختم کر دئے تھے۔ مقررین نے سردار عطاءاللہ مینگل کی سیاسی اور عملی جدوجہد کے ساتھ بلوچ جغرافیائی نقشے پر تفصیلی روشنی ڈالی، جن میں کلچر، زبان، لٹریچر ، بلوچ روایات اور عالمی تبدیلیوں کے پیش نظر بلوچستان پر پڑنے والے اثرات پر بھی باریک بینی سے روشنی ڈالی گئی اور آنے والے تبدیلیوں سے نمٹنے کےلئِے سیاسی، علمی اور عملی تلقین پر زور دیا۔
ریفرنس کے آخر میں این ڈی پی کے مرکزی آرگنائزر شاہزیب بلوچ ایڈوکیٹ نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور مہمانوں کو نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی آرگن راج کا تحفہ دیا۔